سوال:
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته!میں آپ کے سامنے ایک اہم مسئلہ پیش کرنا چاہتا ہوں، جس کے بارے میں شرعی فتویٰ درکار ہے۔ براہِ کرم اس معاملے میں میری مکمل رہنمائی فرمائیں۔ میں خلیجی ممالک میں ایک غیر سرکاری کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں جو سافٹ ویئر اور آئی ٹی کے شعبے میں خدمات فراہم کرتی ہے۔ میرا بنیادی کام آئی ٹی انفراسٹرکچر، سرورز اور دیگر آئی ٹی حل فراہم کرنے تک محدود ہے۔ یہ کمپنی مختلف صارفین کے لیے اپنے ملازمین کو منصوبہ جات (Projects) پر کام کرنے کے لیے بھیجتی ہے۔ حال ہی میں مجھے ایک بینک کے پروجیکٹ پر کام کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ یہ بینک تجارتی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے منصوبوں کو مالی امداد فراہم کرنا ہے، اس بینک کے گاہکوں کے یہاں اکاؤنٹس نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنے تمام مالی معاملات تجارتی بینکوں کے ذریعے انجام دیتا ہے۔
سوالات:1) کیا میرا اس بینک میں بطور پروجیکٹ ملازم کام کرنا جائز ہے؟ واضح رہے کہ میرا کام صرف آئی ٹی سرورز اور حل فراہم کرنے تک محدود ہے اور سود کا کوئی دخل نہیں۔
2) حال ہی میں اس بینک نے مجھے اپنی کمپنی چھوڑ کر براہِ راست ان کا ملازم بننے کی پیشکش کی ہے۔ میری نیت کسی قسم کے فرار یا کمپنی کے معاہدے سے انکار کی نہیں ہے، بلکہ مکمل ضابطے کے تحت باقاعدہ استعفیٰ دینے کے بعد اس بینک میں ملازمت اختیار کرنے کا سوال ہے۔ کیا میرے لیے اس بینک میں براہِ راست ملازمت اختیار کرنا شرعی طور پر جائز ہوگا، جب کہ میرا کام مذکورہ بالا تفصیلات کے مطابق ہوگا؟ آپ سے درخواست ہے کہ ان سوالات کا تفصیلی اور واضح شرعی جواب عطا فرمائیں تاکہ میں اپنے پیشہ ورانہ امور کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جاری رکھ سکوں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ نے کام کی جو تفصیل ذکر کی ہے، وہ کام بنیادی طور پر جائز ہے، نیز اگر مذکورہ بینک سودی معاملات کر رہا ہے تو اس میں آپ کا براہ راست تعاون شامل نہیں ہے، لہذا آپ کیلیے مذکورہ ملازمت اختیار کرنے کی گنجائش ہے، البتہ سودی بینک کے علاوہ کسی دوسرے ادارے میں ملازمت کرنا زیادہ بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقه البیوع: (التعامل مع البنوك الربوية، الباب العاشر، 1031/2، ط: معارف القرآن)
السابع:أن یؤجر المرأ نفسه للبنك بان یقبل فیه وظیفة،فان کانت الوظیفة تتضمن مباشرۃ العملیات الربویة،أوالعملیات المحرمة الأخری، فقبول ھذہ الوظیفة حرام، وذلك مثل التعاقد بالربوا أخذا أوعطاء، أوخصم الکمبیالات، أوکتابة ھذہ العقعود ،أو التوقیع علیھا ۔۔۔۔۔ من کان موظفاً فی البنك بھذہ الشکل،فان راتبه الذی یاخذ من البنك کله من الأکساب المحرمة۔۔۔۔
أما اذا کانت الوظیفة لیس لھا علاقة مباشرۃ بالعملیات الربویة، مثل وظیفة الحارس أو سابق السیارۃ ۔۔۔ فلا یحرم قبولھا ان لم یکن بنیة الاعانة علی العملیات المحرمة، وان کان الاجتناب عنھا أولی، ولا یحکم فی راتبه بالحرمة
احکام القرآن للتھاوی: (81/3)
و ھذا کله اذا کان سببا قریباً باعثاً و جالباً للمعصیة کسب الآلھة الباطلة و ضرب النساء بارجلھن و خضوعھن فی الکلام فان ھذہ کلھا اسباب جالبة للمعصیة فتعد اسبابا قریبة و اما اذا کان سببا بعیدا کبیع العصیر لمن یتخذہ خمرا او اجارۃ الدار لمن یتعاطی فیھا بالمعاصی و عبادۃ غیر الله فان لم یعلم بقصد المشتری و المستجیر، و بما یعمل فیه جاز بلا کراھة و ان علم ذالک کرہ تنزیھا فان ھذا البیع و الاجارۃ لیس سببا جالبا و باعشا للمعصیۃ کسب الآلھة و ضرب النساء بالارجل ما لم ینوا او بصرح بعمل المعصیۃ، نعم! بعد العلم بما یعمل لا یخلو عن شئ من التسبب للمعصیة و لو بعیداً فکان التنزہ عنه اولی۔
کذا فی تبویب الفتاوی جامعه دارالعلوم کراتشی: (رقم الفتوی: 1530/32)
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی