عنوان: اگر یہ گوہ آپ پر ایمان لے آئے تو میں بھی آپ پر ایمان لے آؤں گا۔۔۔ حدیث کی تحقیق(2256-No)

سوال: ایک مولانا صاحب نے ایک حدیث شریف بیان فرمائی، جس میں ایک مری ہوئی گوہ (مونیٹر لیزارد) نے رسول اللہ ﷺ کے حق ہونے کی گواہی دی، اگر یہ واقعہ صحیح حدیث شریف میں ہے تو مہربانی فرما کر حدیث شریف حوالہ سمیت بیان فرما دیں۔

جواب: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْوَلِيدِ السَّلَمِيُّ الْبَصْرِيُّ قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ قَالَ: نا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: نا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ: ثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَدِيثَ الضَّبِّ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ فِي مَحْفَلٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ قَدْ صَادَ ضَبًّا، وَجَعَلَهُ فِي كُمِّهِ، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَحْلِهِ، فَرَأَى جَمَاعَةً، فَقَالَ: عَلَى مَنْ هَذِهِ الْجَمَاعَةُ؟ فَقَالُوا: عَلَى هَذَا الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَشَقَّ النَّاسَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، مَا اشْتَمَلَتِ النِّسَاءُ عَلَى ذِي لَهْجَةٍ أَكْذَبَ مِنْكَ، وَلَا أَبْغَضَ، وَلَوْلَا أَنْ يُسَمِّينِي قَوْمِي عَجُولًا لَعَجِلْتُ عَلَيْكَ، فَقَتَلْتُكَ، فَسَرَرْتُ بِقَتْلِكَ النَّاسَ جَمِيعًا.فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَقْتُلْهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْحَلِيمَ كَادَ أَنْ يَكُونَ نَبِيًّا؟) .ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: وَاللَّاتِ وَالْعُزَّى لَا آمَنْتُ بِكَ، أَوْ يُؤْمِنَ بِكَ هَذَا الضَّبُّ؟ فَأَخْرَجَ ضَبًّا مِنْ كُمِّهِ، وَطَرَحَهُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنْ آمَنَ بِكَ هَذَا الضَّبُّ آمَنْتُ بِكَ.فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (يَا ضَبُّ) !!
فَتَكَلَّمَ الضَّبُّ بِكَلَامٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ، يَفْهَمُهُ الْقَوْمُ جَمِيعًا: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، يَا رَسُولَ رَبِّ الْعَالَمِينَ .
فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (مَنْ تَعْبُدْ؟) .قَالَ: الَّذِي فِي السَّمَاءِ عَرْشُهُ، وَفِي الْأَرْضِ سُلْطَانُهُ، وَفِي الْبَحْرِ سَبِيلُهُ، وَفِي الْجَنَّةِ رَحْمَتُهُ، وَفِي النَّارِ عَذَابُهُ.قَالَ: (فَمَنْ أَنَا، يَا ضَبُّ؟) .قَالَ: أَنْتَ رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَكَ، وَقَدْ خَابَ مَنْ كَذَّبَكَ.فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: أَشْهَدُ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا ...

ترجمہ:
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ضبّ کی حدیث بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ بنوسلیم کا اعرابی حاضر ہوا، جس نے گوہ کا شکار کر کے اپنی آستین میں اس کو رکھا ہوا تھا، اس کو وہ اپنے سفر میں لے جا رہا تھا، اس نے لوگوں کی ایک جماعت دیکھی تو کہنے لگا: یہ جماعت کس شخص پر ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ میں نبی ہوں، تو وہ اعرابی لوگوں کو چیر کر آگے نکل گیا۔ پھر نبی ﷺکی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! عورتیں تجھ سے زیادہ جھوٹے لہجے والی نہیں ہیں، اور تم سے زیادہ بُرا مجھے کوئی نہیں لگتا (نعوذ باللہ)، اگر مجھے میری قوم عجول (عجلت والے) کے نام پر موسوم نہ کرتی تو میں تجھے جلدی سے قتل کر دیتا، اور تیرے قتل سے تمام لوگوں کو خوش کر دیتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے قتل کر دوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تجھے معلوم نہیں کہ حوصلے والا آدمی قریب ہے کہ نبی بن جائے۔“پھر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: مجھے لات اور عزیٰ کی قسم ہے کہ میں تجھ پر ایمان نہیں لایا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اعرابی! تجھے اس بات پر کس نے آمادہ کیا کہ تو نے یہ بات کہی، اور تو نے ناحق کلام کیا، اور تو نے میری مجلس کی عزت نہیں کی، اور تو اللہ کے رسول کو ہلکا سمجھتے ہوئے کہہ رہا ہے؟“ وہ کہنے لگا: قسم ہے لات اور عزیٰ کی، میں تجھ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ تجھ پر ایمان لائے، تو اس نے گوہ اپنی آستین سے نکال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دی اور کہنے لگا: اگر یہ گوہ آپ پر ایمان لے آئے تو میں بھی آپ پر ایمان لے آؤں گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گوہ!“ تو گوہ نے عربی زبان میں کلام کیا جس کو تمام لوگ سمجھ رہے تھے، کہنے لگی: میں حاضر ہوں، اور پھر حاضر ہوں اے رب العالمین کے رسول! تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تو کس چیز کی بندگی کرتی ہے؟“ گوہ کہنے لگی کہ میں اس ذات کی بندگی کرتی ہوں جس کا عرش آسمان میں ہے، اور زمین میں اس کی بادشاہی ہے، اور سمندر میں اس کا راستہ ہے، اور جنّت میں اس کی رحمت ہے، اور آگ میں اس کا عذاب ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گوہ! بتا میں کون ہوں؟“ تو وہ کہنے لگی: آپ جہانوں کے رب کے رسول ہیں، اور خاتم النّبیین ہیں، جو آپ کی تصدیق کرے گا وہ کامیاب ہوا اور جس نے آپ کی تکذیب کی وہ ناکام ہوا۔ اعرابی کہنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں، اور آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ کی قسم! جب میں آپ کے پاس آیا تھا تو میرے لیے روئے زمین پر آپ سے بُرا شخص کوئی نہیں تھا، اللہ کی قسم! اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی جان اور اولاد سے بھی زیادہ پیارے ہیں، آپ پر میرے بال، میرا جسم، میرے جان کا اندرون اور میرا بھید اور میری ظاہری باتیں سب آپ پر ایمان لے آئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب تعریف اس اللہ کے لیے جس نے تجھے اس دین کی ہدایت دی، جو بلند ہوتا ہے اور اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ جس کو اللہ تعالیٰ بغیر نماز کے قبول نہیں کرتا، اور نماز کو بغیر قرآن کے قبول نہیں کرتا۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص سکھا دی۔ تو وہ کہنے لگا: ایسا کلام میں نے کبھی سادہ نثر میں سنا اور نہ نظم میں جو اس سے اچھا ہو۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کلام رب العالمین کا ہے، یہ شعر نہیں ہے۔ اور جب تو نے «قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحََدٌ»کو ایک دفعہ پڑھا تو گویا کہ تو نے ایک تہائی قرآن پڑھ لیا، اور جب تو نے سورۃ اخلاص دو دفعہ پڑھ لیا تو گویا کہ دو تہائی قرآن پڑھ لیا، اور جب تو نے «قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحََدٌ» تین دفعہ پڑھ لی تو گویا کہ تو نے تمام قرآن مجید پڑھ لیا۔“اعرابی کہنے لگا: ہمارا معبود بہت اچھا ہے، وہ تھوڑی چیز بھی قبول کرتا ہے اور زیادہ چیز عنایت فرماتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعرابی کو کچھ دے دو۔“ تو انہوں نے اتنا دیا کہ طاقت سے زیادہ لاد دیا، تو سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اُٹھے، کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ایک اونٹنی دینا چاہتا ہوں، جو بختی اونٹ سے ذرا کم اور اعرابی سے اوپر ہوگی اور دس ماہ والی ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے تو وہ بیان کیا جو تم دو گے اب میں بیان کرتا ہوں جو کچھ اللہ تعالیٰ تجھ کو دیں گے۔“ انہوں نے کہا: فرمائیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے کشادہ موتی کی اونٹنی جس کے پاؤں سبز زبرجد کے ہوں گے، اس کی گردن زرد زبرجد کی ہوگی، اس پر ہودج ہو گا، اسکے اوپر سندس اور استبرق ہو گا جو تجھے اٹھا کر پل صراط سے اس طرح پار کر دے گی جس طرح اچک کر لے جانے والی بجلی ہوتی ہے۔“ تو وہ اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلا گیا تو اس کو ایک ہزار اعرابی ملے جو ایک ہزار چوپایوں پر سوار تھے، ان کے پاس ایک ہزار نیزے اور ایک ہزار تلواریں تھیں۔ اس نے انہیں پوچھا: تم کہاں جانے کا ارادہ کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم اس جھوٹ کہنے والے سے جنگ کریں گے جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے، تو اس اعرابی نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ انہوں نے کہا: تو بھی بے دین ہوگیا ہے، تو وہ کہنے لگا: میں بے دین نہیں ہوا، پھر اس نے انہیں اپنا تمام واقعہ سنایا تو سب نے کہا: اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ایک چادر میں ملے، تو وہ اپنی سواریوں سے اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چومنے لگے اور کہنے لگے: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰهِ» اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہمیں اپنا حکم سنائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم خالد بن ولید کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ۔“ راوی نے کہا: عرب میں اس بنوسلیم قبیلہ کے علاوہ کوئی قبیلہ نہیں جس کے اکٹھے ایک ہزار آدمیوں نے ایمان قبول کیا ہو۔
واقعہ کی تحقیق
مذکورہ بالا واقعہ حدیث کی درج ذیل کتب میں بیان کیا گیا ہے۔طبرانی اپنے المعجم الصغیر ج :2،ص: 62، ط: دارالکتب العلمیہ اور المعجم الاوسط ج : 6، ص: 127، ط:مکتبہ شعییہ پر اور امام بیھقی نے دلائل النبوة:( ج: 6 ،ص36، ط:دارالکتب العلمیہ) اور ابونعیم نے دلائل النبوة (ج: ،2ص:377 ، ط:دارالنفائس ) میں ذکر کیا ہے۔
واقعہ کی سند:
اس واقعے کو محمد بن علي بن الوليد السلمي البصري نے نقل کیا ہےاور پھر ان سے طبرانی اور ابن عدی نے نقل کیا ہے۔
اس واقعے سے متعلق محدثین کا کلام :
امام ذهبي نے "ميزان الاعتدال" (3/ 651،ط:دارالمعرفہ )
میں لکھا ہے کہ" محمد بن علي بن الوليد السلمي البصري کے تذکرہ میں لکھا ہے۔
محمد بن علي بن الوليد السلمي البصري عن العدني محمد بن أبي عمر، وعنه الطبراني، وابن عدي.
روى أبو بكر البيهقي حديث الضب من طريقه بإسناد نظيف، ثم قال البيهقي: الحمل فيه على السلمي هذا.
قلت: صدق والله البيهقي، فإنه خبر باطل " .

ترجمہ: محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري نے عدنی محمد بن عمر سے نقل کیا ہے اور پھر محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري سے طبرانی اور ابن عدی نے نقل کیا ہے۔
اور امام بیھقی نے اس واقعے کو سند نظیف کے ساتھ نقل کیا ہے اور فرمایا کہ اس روایت کی صحت کا مدار محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري پر ہے۔
امام ذھبی فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اللہ کی قسم بیھقی نے سچ کہا ہے، یہ روایت باطل ہے۔
حافظ ابن حجر "لسان الميزان" (5/ 292،ط:دارالکتب العلمیہ ) میں محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري سے متعلق لکھتے ہیں کہ " وروى عنه الإسماعيلي في معجمه وقال: بصري منكر الحديث ".
ترجمہ:
محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري سے اسماعیلی نے بھی اپنی معجم میں روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ بصری منکر الحدیث ہے۔
"كنز العمال" (12/ 358، ط:دارالمؤسسة)میں علامہ علی متقی نے لکھا ہے کہ ابن دحية نے الخصائص میں لکھا ہے کہ "هذا خبر موضوع".
ترجمہ:
یہ خبر من گھڑت ہے۔
ابن عساكر نے "تاريخ دمشق میں لکھاہے کہ " (4/381،ط:دارالفکر ) من ھذا حدیث غریب و فیه من یجھل حاله واسنادہ غیر متصل
ترجمہ:
یہ حدیث غریب ہے اور اس میں ایسے روای ہیں جو مجھول ہیں اور اس کی سند غیر متصل ہے۔ اور پھر ایک سند ضعیف سے تفصیلی واقعہ نقل کیا ہے۔
وقد روي أتم من هذا بإسناد ضعيف أيضا أخبرنا أبو عبد الله الفراوي أنا أبو بكر البيهقي أنا أبو منصور أحمد بن علي الدامغاني من ساكني قرية نامين من ناحية بيهق قراءة عليه من أصل كتابه نا أبو أحمد (1) عبد الله بن عدي الحافظ في شعبان سنة اثنين (2) وستين وثلاثمائة بجرجان نا محمد بن علي بن الوليد السلمي نا محمد بن عبد الأعلى نا معتمر (3) بن سليمان نا كهمس عن داود بن أبي هند عن عامر عن ابن عمر عن عمر بن الخطاب أن رسول الله (صلى الله عليه وسلم) كان في محفل من أصحابه إذا جاء أعرابي من بني سليم وقد صاد ضبا وجعله في كمه ليذهب به إلى رحله فيشويه ويأكله فلما رأى الجماعة قال ما هذه قال هذا الذي يذكر أنه نبي قال فجاء يشق الناس وقال واللات والعزى ما اشتملت (4) النساء على ذي لهجة أبغض إلي منك ولا أمقت منك ولولا أن يسميني قومي عجولا لعجلت عليك فقتلتك فسررت بقتلك الاسود والأحمر والأبيض وغيرهم فقال عمر بن الخطاب دعني يا رسول الله فأقوم فأقتله فقال يا عمر أما علمت أن الحليم كاد يكون نبيا ثم أقبل على الأعرابي وقال له ما حملك على أن قلت ما قلت وقلت غير الحق ولم تكرمني (5) في مجلسي فقال وتكلمني أيضا استخفافا برسول الله واللات والعزى لا أمنت بك أو يؤمن بك هذا الضب فأخرج الضب من كمه فطرحه بين يدي رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فقال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يا ضب فأجابه الضب بلسان عربي مبين ۔۔۔۔۔
اس کے بعد لکھتے ہیں کہ قال البيهقي أخرجه شيخنا أبو عبد الله الحافظ في المعجزات بالإجارة وعن أبي أحمد بن عدي وزاد في آخره قال أبو أحمد قال لنا محمد بن علي كان ابن عبد الأعلى يحدث بهذا مقطوعا وحدثنا بطوله من أصل كتابه مع رعيف الوراق
قال البيهقي وروى ذلك في حديث عائشة وأبي هريرة وما ذكرنا هو أمثل الأسانيد فيه وهو أيضا ضعيف والحمل فيه على السلمي ۔

ترجمہ:
ہمارے شیخ حافظ ابو عبد اللہ نے معجزات میں حافظ ابو احمد بن عدی سے اجازةً روایت کیا ہے اور کہا کہ ابوعبداللہ بن عدی نے مجھے لکھا کہ محمد بن علی بن الولید سلمی اس واقعے کو ذکر کرتے تھے ۔۔۔اور امام بیھقی نے حضرت عائشہ اور ابو ھریرہ کی سند سے نقل کیا، اس کی سند بہتر ہے، لیکن ضعیف ہے، کیونکہ اس واقعہ کا دارمدار محمد بن علی بن الولید سلمی پر ہے۔ علامہ ھیثمی نے مجمع الزوائد(ج:8، ص:294،ط: مکتبہ القدسی ) میں لکھاہے کہ رواہ الطبرانی فی الصغیر والاوسط عن شیخه محمد بن علی بن الولید البصری قال البیھقی: والحمل فی ھذا الحدیث علیه. قلت وبقیة رجاله رجال الصحیح..
ترجمہ:
اس روایت کو طبرانی معجم صغیر اورمعجم اوسط میں اپنے شیخ محمد بن علی بن الولید بصری سے نقل کیا ہےاور امام بیھقی نے فرمایا کہ اس حدیث کا دارمدار محمد بن علی بن الولید بصری پر ہے۔
امام ھیثمی فرماتے ییں کہ میں کہتاہوں کہ اس کے باقی رجال صحیح کے رجال ہیں۔
ملاء علی قاری نے موضوعات کبری (ج :1، ص: 238،ط:موسسة الرسالة)میں لکھا ہےکہ
حَدِيثُ الضَّبُّ وَشَهَادَتُهُ لَهُ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام قيل إِنَّه مَوْضُوعٌ وَقَالَ الْمِزِّيُّ لَا يَصِحُّ إِسْنَادًا وَلَا متْنا لَكِن رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِسَنَدٍ ضَعِيفٍ وَذَكَرَهُ الْقَاضِي عِيَاضٌ فِي الشِّفَاءِ فَغَايَتُهُ الضَّعْفُ لَا الْوَضْعُ
ترجمہ:
حدیث ضب اور اس کی رسول اللہﷺ کےلیے گواہی کے متعلق کہاگیاہے کہ یہ واقعہ من گھڑت ہے اور امام مزی نے کہا کہ نہ اس کی سند صحیح ہے اور نہ ہی متن، لیکن اس کو امام بیھقی نے سندضعیف کے ساتھ نقل کیا ہےاور قاضی عیاض نے بھی شفاء میں ذکر ہے، زیادہ سے زیادہ اس کو ضعیف کہہ سکتے ہیں، موضوع یعنی من گھڑت نہیں کہہ سکتے ہیں۔
خلاصہ کلام:
مذکورہ روایت کی سند پر محدثین نے جرح کی ہے، لہذا زیادہ سے زیادہ اس روایت کو ضعیف کہہ سکتے ہیں، موضوع یعنی من گھڑت نہیں کہہ سکتےہیں، اس لیے مذکورہ روایت ضعف کے طرف اشارہ کیے بغیر بیان نہ کی جائے۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص ، کراچی



Print Full Screen Views: 6686 Oct 12, 2019
ap s.a.w se mutalliq go ki gawahi dene ka waqia or / aur us ki tehqeeq, Confirmation of hadith about "The incident of monitor lizard's testimony about prophet".

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.