سوال:
ایک مولانا صاحب نے ایک حدیث شریف بیان فرمائی، جس میں ایک مری ہوئی گوہ (مونیٹر لیزارد) نے رسول اللہ ﷺ کے حق ہونے کی گواہی دی، اگر یہ واقعہ صحیح حدیث شریف میں ہے تو مہربانی فرما کر حدیث شریف حوالہ سمیت بیان فرما دیں۔
جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت كوبعض محدثین کرام جیسے حافظ ابن دحیہ (م633 ھ)اور امام ذہبی (م 748ھ)نے’’موضوع‘‘(من گھڑت )کہا ہے ،لیکن چونکہ اس روایت کا شاہد موجود ہونے کی وجہ سے اس روایت کو تقویت مل جاتی ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ اس روایت کو ضعیف‘‘کہا جاسکتا ہے،جیسا کہ علامہ قسطلانی (م 923ھ)نے فرمایا ہے،لہذاضعف کی صراحت کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے۔اس روایت کاترجمہ ،تخریج اور اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ:سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ضبّ کی حدیث بیان کرتے ہیں: جناب رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ بنوسلیم کا اعرابی حاضر ہوا، جس نے گوہ کا شکار کر کے اپنی آستین میں اس کو رکھا ہوا تھا، اس کو وہ اپنے سفر میں لے جا رہا تھا، اس نے لوگوں کی ایک جماعت دیکھی تو کہنے لگا: یہ جماعت کس شخص پر ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ میں نبی ہوں، تو وہ اعرابی لوگوں کو چیر کر آگے نکل گیا۔ پھر نبی ﷺکی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: اے محمد ﷺ! عورتیں تجھ سے زیادہ جھوٹے لہجے والی نہیں ہیں، اور تم سے زیادہ بُرا مجھے کوئی نہیں لگتا (نعوذ باللہ)، اگر مجھے میری قوم عجول (عجلت والے) کے نام پر موسوم نہ کرتی تو میں تجھے جلدی سے قتل کر دیتا، اور تیرے قتل سے تمام لوگوں کو خوش کر دیتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ ﷺ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے قتل کر دوں۔ نبی ﷺنے فرمایا: ”کیا تجھے معلوم نہیں کہ حوصلے والا آدمی قریب ہے کہ نبی بن جائے۔“پھر وہ شخص رسول اللہﷺ کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: مجھے لات اور عزیٰ کی قسم ہے کہ میں تجھ پر ایمان نہیں لایا، تو نبی ﷺنے فرمایا: ”اے اعرابی! تجھے اس بات پر کس نے آمادہ کیا کہ تو نے یہ بات کہی، اور تو نے ناحق کلام کیا، اور تو نے میری مجلس کی عزت نہیں کی، اور تو اللہ کے رسول کو ہلکا سمجھتے ہوئے کہہ رہا ہے؟“ وہ کہنے لگا: قسم ہے لات اور عزیٰ کی، میں تجھ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ تجھ پر ایمان لائے، تو اس نے گوہ اپنی آستین سے نکال کر آپ ﷺکے سامنے ڈال دی اور کہنے لگا: اگر یہ گوہ آپ پر ایمان لے آئے تو میں بھی آپ پر ایمان لے آؤں گا۔ تو آپ ﷺنے فرمایا: ”اے گوہ!“ تو گوہ نے عربی زبان میں کلام کیا جس کو تمام لوگ سمجھ رہے تھے، کہنے لگی: میں حاضر ہوں، اور پھر حاضر ہوں اے رب العالمین کے رسول! تو نبی ﷺنے فرمایا:”تو کس چیز کی بندگی کرتی ہے؟“ گوہ کہنے لگی کہ میں اس ذات کی بندگی کرتی ہوں جس کا عرش آسمان میں ہے، اور زمین میں اس کی بادشاہی ہے، اور سمندر میں اس کا راستہ ہے، اور جنّت میں اس کی رحمت ہے، اور آگ میں اس کا عذاب ہے۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا: ”اے گوہ! بتا میں کون ہوں؟“ تو وہ کہنے لگی: آپ جہانوں کے رب کے رسول ہیں، اور خاتم النّبیین ہیں، جو آپ کی تصدیق کرے گا وہ کامیاب ہوا اور جس نے آپ کی تکذیب کی وہ ناکام ہوا۔ اعرابی کہنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں، اور آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ کی قسم! جب میں آپ کے پاس آیا تھا تو میرے لیے روئے زمین پر آپ سے بُرا شخص کوئی نہیں تھا، اللہ کی قسم! اب آپ ﷺمجھے اپنی جان اور اولاد سے بھی زیادہ پیارے ہیں، آپ پر میرے بال، میرا جسم، میرے جان کا اندرون اور میرا بھید اور میری ظاہری باتیں سب آپ پر ایمان لے آئے۔ تو آپ ﷺنے فرمایا: ”سب تعریف اس اللہ کے لیے جس نے تجھے اس دین کی ہدایت دی، جو بلند ہوتا ہے اور اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ جس کو اللہ تعالیٰ بغیر نماز کے قبول نہیں کرتا، اور نماز کو بغیر قرآن کے قبول نہیں کرتا۔“ پھر نبی ﷺنے اسے سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص سکھا دی۔ تو وہ کہنے لگا: ایسا کلام میں نے کبھی سادہ نثر میں سنا اور نہ نظم میں جو اس سے اچھا ہو۔ تو نبی ﷺنے فرمایا: ”یہ کلام رب العالمین کا ہے، یہ شعر نہیں ہے۔ اور جب تو نے «قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ»کو ایک دفعہ پڑھا تو گویا کہ تو نے ایک تہائی قرآن پڑھ لیا، اور جب تو نے سورۃ اخلاص دو دفعہ پڑھ لیا تو گویا کہ دو تہائی قرآن پڑھ لیا، اور جب تو نے «قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ» تین دفعہ پڑھ لی تو گویا کہ تو نے تمام قرآن مجید پڑھ لیا۔“اعرابی کہنے لگا: ہمارا معبود بہت اچھا ہے، وہ تھوڑی چیز بھی قبول کرتا ہے اور زیادہ چیز عنایت فرماتا ہے۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا: ”اعرابی کو کچھ دے دو۔“ تو انہوں نے اتنا دیا کہ طاقت سے زیادہ لاد دیا، تو سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اُٹھے، کہنے لگے: یا رسول اللہ ﷺ! میں اس کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ایک اونٹنی دینا چاہتا ہوں، جو بختی اونٹ سے ذرا کم اور اعرابی سے اوپر ہوگی اور دس ماہ والی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”تم نے تو وہ بیان کیا جو تم دو گے اب میں بیان کرتا ہوں جو کچھ اللہ تعالیٰ تجھ کو دیں گے۔“ انہوں نے کہا: فرمائیے، تو آپ ﷺنے فرمایا: ”تجھے کشادہ موتی کی اونٹنی جس کے پاؤں سبز زبرجد کے ہوں گے، اس کی گردن زرد زبرجد کی ہوگی، اس پر ہودج ہو گا، اسکے اوپر سندس اور استبرق ہو گا جو تجھے اٹھا کر پل صراط سے اس طرح پار کر دے گی جس طرح اچک کر لے جانے والی بجلی ہوتی ہے۔“ تو وہ اعرابی نبی ﷺکے پاس سے چلا گیا تو اس کو ایک ہزار اعرابی ملے جو ایک ہزار چوپایوں پر سوار تھے، ان کے پاس ایک ہزار نیزے اور ایک ہزار تلواریں تھیں۔ اس نے انہیں پوچھا: تم کہاں جانے کا ارادہ کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم اس جھوٹ کہنے والے سے جنگ کریں گے جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے، تو اس اعرابی نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں۔ انہوں نے کہا: تو بھی بے دین ہوگیا ہے، تو وہ کہنے لگا: میں بے دین نہیں ہوا، پھر اس نے انہیں اپنا تمام واقعہ سنایا تو سب نے کہا: اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں۔ یہ بات نبی ﷺکو معلوم ہوئی تو آپ ﷺانہیں ایک چادر میں ملے، تو وہ اپنی سواریوں سے اتر کر آپ ﷺکو چومنے لگے اور کہنے لگے: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰهِ» اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہمیں اپنا حکم سنائیں، تو آپ ﷺنے فرمایا: ”تم خالد بن ولید کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ۔“ راوی نے کہا: عرب میں اس بنوسلیم قبیلہ کے علاوہ کوئی قبیلہ نہیں جس کے اکٹھے ایک ہزار آدمیوں نے ایمان قبول کیا ہو۔( المعجم الأوسط:حدیث نمبر: 5996)
مذکورہ بالا روایت کی تخریج :
۱۔امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘(2/ 153، رقم الحدیث: 948، ط: المکتب الإسلامی)’’ المعجم الأوسط‘‘(6/ 126، رقم الحدیث: 5996، ط:دار الحرمین) میں ذکر ہے۔
۲۔ حافظ ابونعیم اصفہانی(م430 ھ) نے دلائل النبوة (2/223،رقم الحديث:275، ط:المكتبة العصرية) میں ذکر کیا ہے۔
۳۔امام بیہقی(م458 ھ) نے’’ دلائل النبوة‘‘(6 /33، رقم الحديث: 2275،ط: دارالکتب العلمیة)
مذکورہ بالاروایت کی اسنادی حیثیت:
مذکورہ بالاواقعے کی سند کا دارومدار ’’ محمد بن علي بن الوليد السلمي‘‘پر ہے ،جس کی وجہ سے کئی محدثین کرام نے اس واقعے کومن گھڑت قراردیا ہے۔
امام ذہبی (م 748ھ)فرماتے ہیں:’’ محمد بن علي بن الوليد سلمی‘‘ نے عدنی محمد بن عمر سے نقل کیا ہے اور پھر محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري سے طبرانی اور ابن عدی نے نقل کیا ہےاور امام بیہقی نے اس واقعے کو سند نظیف کے ساتھ نقل کیا ہے اور فرمایا کہ اس روایت کی صحت کا مدار محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري پر ہے۔
امام ذہبی(م 748ھ) فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اللہ کی قسم بیہقی نے سچ کہا ہے، یہ روایت باطل ہے۔(۲)
علامہ علی متقی (م 975ھ) نے لکھا ہے کہ ابن دحية نے الخصائص میں لکھا ہےکہ’’یہ خبر من گھڑت ہے‘‘۔(۳)
علامہ ابن حجرعسقلانی(م852ھ)فرماتے ہیں: اس کی سند ’’شدیدضعیف‘‘ہے(۴)،اسی طرح علامہ ابن حجرعسقلانی(م852ھ)’’لسان المیزان ‘‘(5/ 292)میں امام بیہقی اور امام ذہبی کا کلام نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:’’محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري سے اسماعیلی نے بھی اپنی معجم میں روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ بصری’’ منکر الحدیث ‘‘ہے‘‘۔(۵)
علامہ ہیثمی (م807 ھ)فرماتے ہیں: ’’اس روایت کو امام طبرانی نے المعجم الصغیر اورالمعجم الأوسط میں اپنے شیخ محمد بن علی بن الولید بصری سے نقل کیا ہےاور امام بیہقی نے فرمایا کہ اس حدیث کا دارمدار محمد بن علی بن الولید بصری پر ہے۔
امام ہیثمی فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں کہ اس کے باقی رجال صحیح کے رجال ہیں۔(۶)
علامہ سیوطی(م911ھ)فرماتے ہیں:ابن دحیہ اور امام ذہبی نے اس حدیث کو ’’موضوع‘‘(من گھڑت)قراردیا ہے ،میں کہتا ہوں کہ مذکورہ روایت بطریق عمر ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے،جس میں محمد بن علی بن ولید(بصری سُلَمِی) نہیں ہے،جسے ابو نعیم نے ذکر کیا ہے،اور اسی مضمون کی روایت حضرت علی r سے بھی مروی ہے جسے ابن عساکر نے ذکر کیا ہے۔(۷)
علامہ قسطلانی (م 923ھ)فرماتے ہیں: اس روایت پر جرح کی گئی ہے،اور کہا گیا ہے کہ یہ من گھڑت ہے،لیکن آپ ﷺ کے معجزات اس سےبدرجہا بڑھ کر ہیں،اور اس میں کوئی شرعی نکارت بھی نہیں ہے،جبکہ ائمہ نےبھی اسے نقل کیا ہے،زیادہ سے زیادہ یہ ضعیف ہے،من گھڑت نہیں ہے۔(۸)
ملاعلی قاری(م1014 ھ)فرماتے ہیں حدیث ضب اور اس کی رسول اللہﷺ کےلیے گواہی کے متعلق کہاگیاہے کہ یہ واقعہ من گھڑت ہے اور امام مزی نے کہا کہ نہ اس کی سند صحیح ہے اور نہ ہی متن، لیکن اس کو امام بیہقی نے سندضعیف کے ساتھ نقل کیا ہےاور قاضی عیاض نے بھی شفاء میں ذکر ہے، زیادہ سے زیادہ اس کو ضعیف کہہ سکتے ہیں، موضوع یعنی من گھڑت نہیں کہہ سکتے ہیں۔(۹)
شاهد الحديث:
حافظ ابن عساکر(م571ھ)نے’’تاریخ دمشق‘‘(4/381،ط:دارالفکر )میں مذکورہ بالا روایت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طریق سے نقل کیا ہے ۔(۱۰)
خلاصۂ کلام:
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ مذکور ہ بالا روایت کو زیادہ سے زیادہ ’’ضعیف‘‘ کہہ سکتے ہیں ،’’موضوع‘‘( من گھڑت )نہیں کہہ سکتےہیں، اس لیے مذکورہ روایت ضعف کی صراحت کے ساتھ بیان کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱)المعجم الأوسط للطبراني:(6/ 126، رقم الحدیث: 5996، ط:دار الحرمین)
حدثنا محمد بن علي بن الوليد السلمي البصري ، قال : ثنا محمد بن عبد الأعلى الصنعاني ، قال : نا معتمر بن سليمان ، قال : نا كهمس بن الحسن قال : ثنا داود بن أبي هند ، عن عامر الشعبي ، قال : نا عبد الله بن عمر ، عن أبيه عمر بن الخطاب - حديث الضب - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في محفل من أصحابه ، إذ جاء رجل أعرابي من بني سليم قد صاد ضبا ، وجعله في كمه ، فذهب به إلى رحله ، فرأى جماعة ، فقال : على من هذه الجماعة ؟ فقالوا : على هذا الذي يزعم أنه نبي ، فشق الناس ، ثم أقبل على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : يا محمد ، ما اشتملت النساء على ذي لهجة أكذب منك ولا أبغض ، ولولا أن يسميني قومي عجولا لعجلت عليك فقتلتك ، فسررت بقتلك الناس جميعا ، فقال عمر : يا رسول الله دعني أقتله ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أما علمت أن الحليم كاد أن يكون نبيا ؟ ثم أقبل على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : واللات والعزى لا آمنت بك ، وقد قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا أعرابي ما حملك على أن قلت ما قلت ، وقلت غير الحق ، ولم تكرم مجلسي ؟ فقال : وتكلمني أيضا - استخفافا برسول الله صلى الله عليه وسلم - واللات والعزى لا آمنت بك ، أو يؤمن بك هذا الضب ؟ فأخرج ضبا من كمه ، وطرحه بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : إن آمن بك هذا الضب آمنت بك ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا ضب ، فتكلم الضب بكلام عربي مبين ، يفهمه القوم جميعا : لبيك وسعديك يا رسول رب العالمين ، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: من تعبد ؟ قال : الذي في السماء عرشه وفي الأرض سلطانه وفي البحر سبيله وفي الجنة رحمته وفي النار عذابه ، قال : فمن أنا يا ضب ؟ قال : أنت رسول رب العالمين ، وخاتم النبيين ، قد أفلح من صدقك ، وقد خاب من كذبك ، فقال الأعرابي : أشهد أن لا إله إلا الله ، وأنك رسول الله حقا ، لقد أتيتك وما على وجه الأرض أحد هو أبغض إلي منك ، والله لأنت الساعة أحب إلي من نفسي ومن والدي ، وقد آمنت بك بشعري ، وبشري ، وداخلي ، وخارجي ، وسري ، وعلانيتي ، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : الحمد لله الذي هداك إلى هذا الدين الذي يعلو ، ولا يعلى ، لا يقبله الله إلا بصلاة ، ولا يقبل الصلاة إلا بقرآن ، فعلمه رسول الله صلى الله عليه وسلم ( الحمد ) و : { قل هو الله أحد } فقال : يا رسول الله ما سمعت في البسيط ولا في الرجز أحسن من هذا ، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن هذا كلام رب العالمين ، وليس بشعر ، إذا قرأت : { قل هو الله أحد } مرة ، فكأنما قرأت ثلث القرآن ، وإذا قرأت : { قل هو الله أحد } مرتين ، فكأنما قرأت ثلثي القرآن ، وإذا قرأت : { قل هو الله أحد } ثلاث مرات ، فكأنما قرأت القرآن كله ، فقال الأعرابي : نعم الإله إلهنا ، يقبل اليسير ، ويعطي الجزيل ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أعطوا الأعرابي ، فأعطوه حتى أبطروه ، فقام عبد الرحمن بن عوف ، فقال : يا رسول الله ، إني أريد أن أعطيه ناقة أتقرب بها إلى الله دون البختي ، وفوق الأعرابي ، وهي عشراء ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : قد وصفت ما تعطي ، فأصف لك ما يعطيك الله جزاء ؟ قال : نعم ، قال : لك ناقة من درة جوفاء ، قوائمها من زمرد أخضر ، وعنقها من زبرجد أصفر ، عليها هودج ، وعلى الهودج السندس ، والإستبرق ، تمر على الصراط كالبرق الخاطف .
فخرج الأعرابي من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلقيه ألف أعرابي على ألف دابة ، بألف رمح ، وألف سيف ، فقال لهم : أين تريدون ؟ فقالوا : نقاتل هذا الذي يكذب ويزعم أنه نبي ، فقال الأعرابي : أشهد ألا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، قالوا له : صبوت ؟ قال : ما صبوت ، وحدثهم الحديث ، فقالوا بأجمعهم : لا إله إلا الله ، محمد رسول الله ، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم ، فتلقاهم بلا رداء ، فنزلوا عن ركابهم ، يقبلون ما ولوا منه ، وهم يقولون : لا إله إلا الله محمد رسول الله ، فقالوا : مرنا بأمر يحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : تكونون تحت راية خالد بن الوليد ، قال : فليس أحد من العرب آمن منهم ، ألف رجل جميعا ، غير بني سليم .
أخرجه الطبراني في ’’المعجم الصغير‘‘2/ 153(948)وقال: لم يرو هذا الحديث عن داود بن أبي هند بهذا التمام إلا كهمس ، ولا عن كهمس إلا معتمر ، تفرد به محمد بن عبد الأعلى .وأبونعيم الأصبهاني في ’’دلائل النبوة ‘‘ (2/223 )( 275)و البيهقي في ’’دلائل النبوة ‘‘(6 /33)(2275)وقال: وروى ذلك في حديث عائشة، وأبي هريرة، وما ذكرناه هو أمثل الإسناد فيه
(۲) ميزان الاعتدال:(3/ 651،ط:دارالمعرفة )
محمد بن علي بن الوليد السلمي البصري عن العدني محمد بن أبي عمر، وعنه الطبراني، وابن عدي.
روى أبو بكر البيهقي حديث الضب من طريقه بإسناد نظيف، ثم قال البيهقي: الحمل فيه على السلمي هذا.
قلت: صدق والله البيهقي، فإنه خبر باطل " .
(۳) كنز العمال: (12/ 358، ط:مؤسسة الرسالة) قال ابن دحية في الخصائص: هذا خبر موضوع
(۴)التلخيص الحبير:4 /319،رقم الحديث:1921،ط:درالكتب العلمية)
ورواه الطبراني في "الصغير" من حديث عمر مطولا في قصة الأعرابي والضب، وإسناده ضعيف جدا.
(۵) لسان الميزان:(5/ 292،ط: درالكتب العلمية)
وروى عنه الإسماعيلي في معجمه وقال: بصري منكر الحديث .
(۶)مجمع الزوائدللهيثمي:(8/294،(14086)ط: مکتبة القدسی ) رواه الطبراني في الصغير والأوسط عن شيخه محمد بن علي بن الوليد البصري قال البيهقي: والحمل في هذا الحديث عليه. قلت:، وبقية رجاله رجال الصحيح.
(۷)الخصائص الکبرى: (2/ 100،ط: دار الکتب العلمية )
وقد زعم ابن دحية أن هذا الحديث موضوع وكذا الذهبي قلت لحديث عمر طريق أخر ليس فيه محمد بن علي بن الوليد أخرجه أبو نعيم وقد ورد أيضا مثله من حديث علي أخرجه ابن عساكر
(۸)المواهب اللدنية للقسطلاني:(2/ 279،ط:المكتبة التوفيقية)
الحديث بطوله، وهو مطعون فيه وقيل إنه موضوع. لكن معجزاته- صلى الله عليه وسلم- فيها ما هو أبلغ من هذا وليس فيه ما ينكر شرعا خصوصا وقد رواه الأئمة فنهايته الضعف لا الوضع، والله أعلم.
(۹)الأسرارالمرفوعة لملاعلي القاري:(224،رقم الحديث:272،ط:دارالكتب بشاور)
قيل إنه موضوع وقال المزي لا يصح إسنادا ولا متنا لكن رواه البيهقي بسند ضعيف وذكره القاضي عياض في الشفاء فغايته الضعف لا الوضع
(۱۰)شاھد الحدیث من حديث علي رضى الله عنه:
أخرجه ابن عساكر في ’’تاريخه دمشق‘‘(4/381،ط:دارالفکر )من حديث علي مفصلاًوقال: هذا حديث غريب وفيه من يجهل حاله وإسناده غير متصل وقد روي أتم من هذا بإسناد ضعيف۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی