عنوان: ٹریول ایجنسی (Travel Agency )کا مسافر کو باہر ملک بھیجنے کیلیے ایئرپورٹ کے عملہ کو مخصوص رقم دینا (22562-No)

سوال: مفتی صاحب! میں ٹریول ایجنسی کا کام کرتا ہوں، ٹریول ایجنسی کے دو مسئلوں سے متعلق آپ سے شرعی رہنمائی مطلوب ہے۔
1) متحدہ عرب امارات کے لیے مسافر کے پاس پانچ ہزار ریال ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ واپس کردیتے ہیں، بسا اوقات ہمارے کسی کلائنٹ کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی تو ہم ائیرپورٹ پر ہزار دو ہزار بطور رشوت عملہ کو دے کر اپنے کلائنٹ کو ائیرپورٹ سے باہر کروادیتے ہیں اور وہ ہزار یا دو ہزار اپنے کلائنٹ سے ہی لیتے ہیں تو کیا ہمارا اس طرح کلائنٹ کو بھجوانا جائز ہے؟
2) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی جگہ کی ویزہ وغیرہ کی فیس بھرنے کے بعد ویزہ کینسل ہوجاتا ہے اور وہ رقم بھی واپس نہیں ملتی ہے تو ہم اپنے کلائنٹ کو نقصان سے بچانے کے لیے یہ کرتے ہیں کہ ویزہ کی فیس سے بیس ہزار زیادہ لیتے ہیں اور یہ خطرہ ہم اپنے سر لے لیتے ہیں کہ اگر ویزہ لگ گیا تو چلے جانا، اس صورت میں زائد لی ہوئی رقم ہماری ہوجاتی ہے اور اگر ویزہ نہیں لگا تو جو ویزہ کی فیس ہوتی ہے، ہم وہ کلائنٹ کو واپس کردیتے ہیں اور بیس ہزار کا نقصان ہم برداشت کرتے ہیں۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ صورت جائز ہے؟

جواب: 1) پوچھی گئی صورت میں مسافر کو باہر بھیجنے کیلئے ایئر پورٹ کے عملہ کو غیر قانونی طور پر کچھ دینا شرعاً رشوت کے زمرے میں داخل ہے، جوکہ جائز نہیں ہے، لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔
2) ویزہ کینسل ہونے کی صورت میں ممکنہ نقصان کے پیش نظر مسافر سے اضافی رقم لینا اس شرط پر جائز ہوسکتی ہے کہ اس رقم کو اپنی خدمات (Services) کی مجموعی اجرت کا حصہ بنا کر لیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (16/3، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن عبد الله بن عَمْرٍو قال: لعَن رسول اللهِ صلَّى اللَّه عليه وسلَّم الرَّاشِي وَالمُرْتَشِي

رد المحتار: (362/5، ط: دار الفکر)
الرّشوة بِالكسر ما يُعطيه الشّخص الْحا كمَ وغيره ليحكم له أَوْ يحمله علَى ما يرید

بدائع الصنائع: (193/4، ط: دار الکتب العلمیة)
والأصل في شرط العلم بالأجرة قول النبي - صلى الله عليه وسلم - «من استأجر أجيرا فليعلمه أجره» والعلم بالأجرة لا يحصل إلا بالإشارة والتعيين أو بالبيان

الهداية: (266/6، ط: مکتبة البشری)
الإجارۃ عقد علی المنافع بعوض … ولا یصح حتی تکون المنافع معلومة والأجرة معلومة

رد المحتار: (47/6، ط: دار الفکر)
قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة و يطيب الأجر المأخوذ

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 21 Dec 16, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.