سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص کی دو بیویاں ہیں، دونوں ایک ہی گھر میں رہتی ہیں، شوہرترتیب کیساتھ باقاعدگی سے ایک رات ایک بیوی کے ساتھ اور دوسری رات دوسری بیوی کے ساتھ سوتے ہیں، پہلی بیوی کچھ خاص حالات کی بناء پر میکہ رہنے نہیں جاتی ہیں جبکہ دوسری بیوی کو اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے اکثر (مثلاً چار پانچ دن کے لیے) رہنے جانا پڑتا ہے، وہ دو تین دن کے لیے ہی شوہر کے گھر آپاتی ہیں اور پھر ان کو والدہ کے گھر جانا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب دوسری بیوی شوہر کے گھر آتی ہیں تو اگرشوہر لگاتار تین راتیں ان کے ساتھ سو جائیں تو کیا پہلی بیوی کے ساتھ کوئی نا انصافی تو نہیں ہوگی کیونکہ باقی کی پانچ چھ راتیں تو وہ لگاتار پہلی بیوی کے ساتھ ہی سو رہے ہوتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ شوہر پر دو بیویوں میں انصاف اور برابری کا معاملہ کرنا ضروری ہے، اس لیے اس نے ان میں رات گزارنے سے متعلق برابری کے لیے جو ترتیب مقرر کی ہو، اسی ترتیب پر چلتا رہے، جس بیوی کے پاس رات گزارنے کی باری ہو اسی کے پاس رات بسر کرے، اور اگر کوئی بیوی اپنی ذاتی مجبوری کی وجہ سے اپنے میکے جائے اور شوہر کے گھر میں موجود نہ ہو تو وہ دراصل اپنا حق خود ساقط کر رہی ہے، اس کی وجہ سے دوسری بیوی کی باری کی راتیں اس کو نہیں دی جائیں گے۔ تاہم اس صورتِ حال میں شوہر کے لیے یہ درست ہے کہ ان کی ترتیب کو مدنظر رکھ کر باہمی مشورے سے باقاعدہ ایک ترتیب بنا لے، مثلاً: تین راتیں ایک بیوی کے ساتھ اور تین راتیں دوسری بیوی کے ساتھ۔ اور پھر اس ترتیب کے مطابق اگر کوئی بیوی اپنی رات میں موجود نہیں ہے تو اس کا حق ساقط ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (340/1، ط: دار الفكر)
«ومما يجب على الأزواج للنساء العدل والتسوية بينهن فيما يملكه والبيتوتة عندها للصحبة والمؤانسة لا فيما لا يملك وهو الحب والجماع كذا في فتاوى قاضي خان»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی