سوال:
مسئلہ یہ عرض کرنا ہے کہ ایک شخص نے نکاح کے وقت اپنے نکاح نامے پر لکھوایا کہ میری بیوی جب چاہے اپنے آپ کو خود سے طلاق دے سکتی ہے، شادی کے بعد تین سے چار سال ہو گئے ہیں شوہر منظر سے غائب ہے، پتہ نہیں کہاں ہے کہاں نہیں کچھ اس کا پتہ نہیں، اب بیوی پوچھنا یہ چاہ رہی ہے کہ کیا میں وہ حق استعمال کر سکتی ہوں؟ کیونکہ اس پہ باقاعدہ لکھا ہوا ہے کہ میں اپنے آپ کو خود سے طلاق دے سکتی ہوں تو کیا بیوی اپنے آپ کو خود سے طلاق دے کر عدت پوری کر کے کسی اور سے نکاح کر سکتی ہے؟ اور اگر بعد میں خاوند آکر اگر کچھ کہے کہ میں نے تو تمہیں طلاق نہیں دی تو اس کی کیا صورت ہوگی؟ برائے مہربانی وضاحت فرما دیں۔
تنقیح: محترمہ آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ سوال میں ذکر کردہ الفاظ " میری بیوی جب چاہے اپنے آپ کو خود طلاق دے سکتی ہے" نکاح نامے میں موجود نہیں ہے۔ کیا آپ صرف نکاح نامے کے الفاظ سے متعلق جواب پوچھنا چاہ رہی ہے؟ نکاح نامے میں مذکور الفاظ کے ذریعے بیوی کو طلاق کا اختیار نکاح سے پہلے دیا گیا ہے یا نکاح کے بعد مذکورہ الفاظ لکھوائے گئے ہیں؟ اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح: جی نکاح نامے کے متعلق ہی سوال پوچھنا ہے اور نکاح پہلے ہوا ہے یہ فارم بعد میں فل کیا گیا ہے۔
جواب: واضح ہے کہ اگر شوہر بیوی کو طلاق کا اختیار تفویض (سپرد) کر دے تو عورت کو اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے، پھر اگر شوہر نے یہ اختیار دائمی طور پر دیا ہو تو عورت کو ہمیشہ کے لیے یہ اختیار حاصل رہتا ہے، لیکن اگر شوہر نے یہ اختیار دائمی طور پر نہ دیا ہو، بلکہ مطلقاً یہ اختیار دیا ہو اور اس میں دائمی اور ہمیشگی کے الفاظ نہ پائے جاتے ہوں (جیسا کہ نکاح نامہ میں مذکورہ الفاظ اسی قبیل سے ہیں) تو اصولی طور پر عورت کا اختیار صرف اسی مجلس تک محدود رہتا ہے، لہذا تفویضِ طلاق کی مجلس ختم ہونے پر عورت کا اختیار بھی ختم ہو جاتا ہے، لیکن چونکہ نکاح نامہ میں عورت کی جانب سے طلاق کے اختیار کے مطالبے سے مقصود ہی دائمی طور پر طلاق کے اختیار کا مطالبہ ہوتا ہے اور عرف عام میں لوگ اس کو دائمی اختیار ہی سمجھتے ہیں، اس لیے نکاح نامہ میں اگرچہ تفویضِ طلاق کے الفاظ مطلق ہوں، تاہم پھر بھی عورت کو یہ اختیار ہمیشہ کے لیے حاصل رہے گا، جسے عورت بوقتِ ضرورت کسی بھی وقت استعمال کرکے خود پر طلاق واقع کرسکتی ہے۔
نیز چونکہ نکاح نامہ میں صریح طلاق کا حق دیا گیا ہے، لہذا اگر بیوی خود پر طلاق واقع کرے گی تو اس پر صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اور عدت گزارنے کے بعد یہ عورت اس شخص کے نکاح سے نکل جائے گی اور اس کے لیے عدت کے بعد کسی اور مرد سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (336/3، ط: دار الكتاب الإسلامي)
وقيد باقتصاره على التخيير المطلق لأنه لو قال لها: اختاري الطلاق فقالت اخترت الطلاق فهي واحدة رجعية لأنه لما صرح بالطلاق فقد خيرها بين نفسها بتطليقة واحدة رجعية وبين ترك التطليقة وكذا في قوله: أمرك بيدك كذا في البدائع وهو مستفاد من قول المصنف آخر الباب اختاري تطليقة أو أمرك بيدك في تطليقة،
الهندية: (387/1، ط: دار الفكر)
إذا قال لامرأته اختاري ينوي بذلك الطلاق أو قال لها طلقي نفسك فلها أن تطلق نفسها ما دامت في مجلسها ذلك وإن تطاول يوما أو أكثر ما لم تقم منه أو تأخذ في عمل آخر وكذا إذا قام هو من المجلس فالأمر في يدها ما دامت في مجلسها وليس للزوج أن يرجع في ذلك ولا ينهاها عما جعل إليها ولا يفسخ كذا في الجوهرة النيرة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی