سوال:
میں اور میرے دوست شہر سے کچھ دور ملازمت کرتے ہیں، رقم گھر بھیجنے کے لئے شہر تک آنے جانے میں تقریباْ 100 روپے کرایہ، جاز کیش کی فیس (20 روپے فی -/1000)، شہر میں جا کر چائے وغیرہ کا خرچہ اور وقت کا ضیاع وغیرہ جیسے امور اور وقت بوقت کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے میں دوست کے پیسے اپنے بینک اکاؤنٹ سے (10 روپے فی -/1000) کے حساب سے رقم منتقل کر دیتا ہوں۔ اس طرح ان کا وقت بھی بچ جاتا ہے اور فالتو پیسے بھی۔ کیا یہ میرے لئے رقم منتقل کرنے کے عوض ایک ہزار روپے پر دس روپے لینا جائز ہے؟ برائےمہربانی رہنمائی فرمائیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اپنے اکاؤنٹ سے رقم بھیجنے کے عوض باہمی رضامندی سے متعین رقم بطور اجرت لینا شرعاً درست ہے، کیونکہ یہ سروس فراہم کرنے کی اجرت ہے جو کہ جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (409/4، ط: دار الفکر)
(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية.
و فیه ایضا: (411/4)
وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين ۔۔۔۔۔ ومنها أن تكون الأجرة معلومة
فقه البیوع: (751/2)
"أن دائرة البرید نتقاضی عمولة من المرسل علی إجراء ہذہ العملیة فالمدفوع إلی البرید أکثر مما یدفعه البرید إلی المرسل إلیه فکان فی معنی الربا ولہذالسبب أفتی بعض الفقہاء فی الماضی القریب بعدم جواز إرسال النقود بہذالطریق ولکن أفتی کثیر من العلماء المعاصرین بجوازہا علی أساس أن العمولة التی یتقاضاہا البرید عمولة مقابل الأعمال الإداریة من دفع الاستمارة وتسجیل المبالغ وإرسال الاستمارة أوالبرقیة وغیرہا إلی مکتب البرید فی ید المرسل إلیه وعلی ہذ الأساس جوز الإمام أشرف علی التہانوی رحمہ اللہ-إرسال المبالغ عن طریق الحوالة البریدیة".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی