سوال:
حضرت! رہنمائی فرمائیں کہ کیا والدین کو اولاد جنت میں جانے سے روک سکتی ہے؟ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ باپ کی ناراضگی سے اولاد جنت میں داخل نہیں ہوگی، اسی طرح کچھ ماں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے، اور سورہ اسراء میں اللہ تعالی نے والدین کو اُف کہنے سے بھی منع فرمایا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیسے سمجھا جائے کہ ایک ہی جانب کو اتنا آرام دیا جارہا ہے، اللہ تو عدل کی صفت والے ہیں تو اولاد کے لیے والدین کو کیا کوئی ہدایت قرآن میں دی گئی ہے؟ اگر نہیں دی گئی ہے تو یہ عدل کا تقاضا تو نہ ٹھہرا کہ والدین اولاد کو قرآن کی آیت بتا کر بلیک میل کرتے رہیں اور ایک طرفہ ہی عزت و احترام وغیرہ کی توقع کی جاتی ہے؟ براہ کرم والدین اور اولاد کے حقوق سے متعلق رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ دین اسلام میں ظلم ہر ایک کے لیے ممنوع ہے، اس کو کسی کے لیے جائز قرار نہیں دیا گیا ہے، چاہے وہ اولاد ہو، والدین ہوں یا کوئی اور۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:"بیشک اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا". (النساء آیت نمبر: 40)
اسی طرح دین اسلام میں اولاد اور والدین دونوں کے حقوق اور فرائض بیان کیے گئے ہیں، کسی کو ظلم اور زیادتی کی اجازت نہیں دی گئی ہے، البتہ چونکہ والدین اپنی زندگی کے آخری ایام میں اولاد کے حسن سلوک کے زیادہ محتاج اور حقدار ہوتے ہیں، اور اولاد سے اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کمی اور کوتاہی واقع ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اس حق کی زیادہ تاکید وارد ہوئی ہے، اس کے بر خلاف اولاد کو والدین کی طرف سے دیکھ بھال کی ضرورت ان کی زندگی کے ابتدائی حصہ میں ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے والدین کی فطرت میں یہ بات رکھ دی ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، یہاں ہم چند قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کا ترجمہ ذکر کرتے ہیں جس سے والدین پر ان کی اولاد کے حقوق واضح ہوں۔
سورۃ التکویر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور جس بچی کو زندہ قبر میں گاڑ دیا گیا تھا اس سے پوچھا جائے گا، کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟" (التکویر: 8-9)
اسی طرح سورۃ الاسراء میں اللہ وبرکاتہ وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
"اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے، اور تمہیں بھی، یقین جانو کہ ان کو قتل کرنا بڑی بھاری غلطی ہے"۔ (سورۃ اسراء، آیت نمبر:31)
احادیث مبارکہ میں بھی ہمیں اولاد کی تربیت سے متعلق احادیث مبارکہ بکثرت ملتی ہیں، ایک حدیث شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک اپنے ماتحتوں کا نگہبان ہے اور بروزِ قیامت اس سے اس کے ماتحتوں سے متعلق باز پرس ہوگی، پس امیر جو عام لوگوں کا حاکم ہو، وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق سوال ہو گا، اور آدمی اپنے اہل خانہ (بیوی بچوں) کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا، اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگران ہے اور اس سے ان کے متعلق بازپرس ہوگی، غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، پس تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی" (سنن ابی داؤد: 2928)
ایک حدیث شریف میں خاص طور پر لڑکیوں کی ترتیب پر اجر و ثواب کی نوید سنائی گئی ہے:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے اگر کسی کے پاس تین بیٹیاں یا بہنیں ہوں اور پھر وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا''۔ (جامع الترمذی، حدیث نمبر:1912)
یہاں ایک بات کی وضاحت نہایت ضروری ہے کہ اولاد کے کونسے حقوق کب تک والدین پر ادا کرنا لازم ہیں، اس کی مکمل تفصیلات شریعتِ اسلامی میں واضح طور پر مذکور ہیں، عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اولاد کی طرف سے بعض ایسی چیزوں (مثال کے طور پر: والد کی زندگی میں ان کی جائیداد میں حصہ مانگنا) کا مطالبہ کیا جاتا ہے، جو ان کا حق نہیں ہے، اور جب ان کو اس میں کامیابی نہیں ملتی تو پھر وہ اس کو ظلم اور زیادتی سمجھنے لگتے ہیں۔
لہذا والدین اور اولاد میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ علماء اور مفتیان کرام سے اپنے فرائض، حقوق اور ان کا دائرہ کار معلوم کرکے اس کے متعلق عمل کرنے کی کوشش کریں اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (سورۃ النساء، الآیة: 40)
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظۡلِمُ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ ۚ وَاِنۡ تَكُ حَسَنَةً يُّضٰعِفۡهَا وَيُؤۡتِ مِنۡ لَّدُنۡهُ اَجۡرًا عَظِيۡمًا O
القرآن الکریم: سورۃ الاسراء: الآیة: 31)
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا O
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 2928، ط: دار الرسالة العالمیة)
عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الا كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته، فالامير الذي على الناس راع عليهم وهو مسئول عنهم، والرجل راع على اهل بيته وهو مسئول عنهم، والمراة راعية على بيت بعلها وولده وهي مسئولة عنهم، والعبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته".
جامع ترمذی: (رقم الحدیث: 1912، ط: دار الغرب الاسلامی)
عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّم قَالَ: "لاَ يَكُونُ لأَحَدِكُمْ ثَلاَثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلاَثُ أَخَوَاتٍ فَيُحْسِنُ إِلَيْهِنَّ إِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ".
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی