سوال:
مفتی صاحب! گذارش ہے کہ کاشتکار حضرات کو شوگر ملز والے کھاد دوائی کا ریٹ متعین کرکے ادھار پر کاشکاروں کو فروخت کرتے ہیں اور کاشتکار سے گنّے کی صورت میں کھاد کی رقم وصول کر لیتے ہیں، یعنی: کاشکار جو گنّا مل میں سپلائی کرتا ہے، اس کی رقم سے کھاد کی رقم کاٹ لیتے ہیں اور جو بچ جائے وہ کاشتکار کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیتے ہیں۔
رقم لیٹ کرنے پر کوئی اضافی رقم بھی نہیں لیتے، لیکن وہ کاشتکار کو جو فارم دیتے ہیں، اس میں تحریری طور پر پابند کرتے ہیں کہ کاشتکار ملز ھذا کو سارا گنّا سپلائی کریگا، جس سے وہ ادھار پر فروخت کی گئی کھاد دوائی کی رقم کاٹ لیں، جس پر کاشتکار کوئی اعتراض نہیں کریگا۔
یاد رہے کہ ملز کے ملازمین اپنے طور پر کہہ دیتے ہیں کہ صرف کھاد کی رقم جتنا گنا ملز میں دیں، باقی آپ کی مرضی اور باقی گنا نہ دینے کی صورت میں کوئی کاروائی بھی نہیں کرتے۔
مزید یہ کہ شوگر مل والوں کو کھاد ادھار دینے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ گنا زیادہ کاشت ہوتا ہے اور پیدوار اچھی ہوتی ہے جو کہ شوگر ملز کی ضرورت ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ معاملہ سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں اور یہ قرض لینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں شوگر ملز والے کاشتکار حضرات کو کھاد، دوائی وغیرہ ادھار پر فروخت کرتے ہیں اور اس کے بدلے کھاد اور دوائی کی رقم کے بقدر گنّا وصول کرتے ہیں، اصولی طور پر خرید و فروخت کا یہ معاملہ یہاں تک درست ہے، لیکن کاشتکار حضرات کو تحریری طور پر سارا گنّا شوگر ملز والوں کو سپلائی/فروخت کرنے کا پابند بنانا درحقیقت ایک ہی عقد میں دو معاملات کو جمع کرنے کی صورت بن رہی ہے (جسے شریعت کی اصطلاح میں "صفقة فی صفقة" کہا جاتا ہے) جو کہ شرعاً جائز نہیں ہے، لہذا شوگر مل اور کاشتکار کے درمیان مذکورہ معاملہ شرعاً درست نہیں ہے۔
البتہ اگر کاشتکار حضرات کو کھاد وغیرہ بیچتے وقت شوگر ملز کو سارا گنّا سپلائی/فروخت کرنے کا پابند نہ کیا جائے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی معاہدہ کیا جائے، بلکہ کاشتکار بعد میں اپنی خوشی سے سارا گنّا اسی مل کو باہمی رضامندی سے متعین رقم کے عوض سپلائی/فروخت کردے تو یہ معاملہ درست ہوجائے گا۔
نیز اس سلسلے میں کاشتکار سے گنّا سپلائی کرنے پر وعدہ بھی لیا جاسکتا ہے، لیکن دونوں معاملات (کاشتکار کو کھاد، دوائی فروخت کرنے اور اس سے سارے گنّے کی سپلائی لینے) کو سوال میں مذکورہ صورت کے مطابق آپس میں مشروط نہیں کیا جاسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
جامع الترمذي: (513/2، رقم الحدیث: 1231)
عن أبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين» في بيعة.
وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، وابن عمر، وابن مسعود.حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح.
والعمل على هذا عند أهل العلم، وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة، وبنسيئة بعشرين - ولا يفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما.
قال الشافعي: ومن معنى نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك داري هذه بكذا على أن تبيعني غلامك بكذا، فإذا وجب لي غلامك وجبت لك داري - وهذا يفارق عن بيع بغير ثمن معلوم، ولا يدري كل واحد منهما على ما وقعت عليه صفقته.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی