عنوان: قرض دینے کے عوض فیس لینا (22612-No)

سوال: ایک ادارہ جو بلا سود قرضہ دینے کا دعوے دار ہے، یہ ادارہ مختلف امور کا قرضہ دیتا ہے اور بغیر کسی زیادتی کے قرض قسطوں میں واپس لیتا ہے، لیکن ابھی انہوں نے مکان کی تعمیر کے لیے قرض دینے کا پراجیکٹ نکالا ہے جس میں پانچ لاکھ تک قرض پانچ سال کے لیے دیں گے، لیکن ہر ایک لاکھ پر سالانہ 4500 روپے زائد وصول کریں گے، یعنی پانچ لاکھ پر ایک لاکھ دس ہزار روپے زائد لیں گے۔ ادارہ کے ذمہ دار کا کہنا یہ ہے کہ یہ سود نہیں ہے، بلکہ زائد رقم ہم سروس چارجز کی مد میں وصول کر رہے ہیں، ہمارا پورے ملک میں سسٹم ہے، عملہ کی تنخواہیں ہیں تو یہ سروس چارجز ہیں۔ پہلے یہ چارجز حکومت یا ادارہ برداشت کرتے تھے، لیکن اب حکومت انکاری ہے اور ادارہ یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا، لہذا صارفین سے یہ چارجز ہر ایک لاکھ کے بدلے 4500 روپے زائد وصول کریں گے، دو لاکھ ہوں گے تو 9 ہزار روپے زائد وصول کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس ادارے سے اس قسم کا قرض لینا شرعاً کیسا ہے اور زائد رقم سروس چارجز کے طور پر ادا کرنا کہیں سود تو نہیں ہے؟

جواب: واضح رہے کہ قرض پر منافع لینا سود کے زمرے میں داخل ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے، البتہ قرض دینے میں اگر کوئی حقیقی اخراجات (مثلاً: ڈاکو منٹیشن وغیرہ کے) آتے ہوں تو صرف اتنے بقدر اخراجات لیے جاسکتے ہیں، لیکن محض محنت کا عوض اور عملہ کی تنخواہوں وغیرہ کی مد میں حقیقی اخراجات سے زیادہ رقم لینا شرعاً درست نہیں ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ ادارہ قرض دینے پر لگنے والے حقیقی اخراجات سے قطع نظر قرض دی گئی رقم کے حساب سے متعین (fix) پیسے لیتا ہے تو یہ جائز نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المعايير الشرعية للمؤسسات المالية الإسلامية: (المادة: 4/2، رقم المعیار: 02)
يجوز للمؤسسة المصدرة للبطاقة أن تتقاضى من حامل البطاقة رسم عضوية، ورسم تجديد، ورسم استبدال۔

و فيه أيضا : (المادة: 9/1، رقم المعیار: 19)
يجوز للمؤسسة المقرضة أن تأخذ على خدمات القروض ما يعادل مصروفاتها الفعلية المباشرة، ولا يجوز لها أخذ زيادة عليها، وكل زيادة على المصروفات الفعلية محرمة۔ ويجب أن تتوخى الدقة في تحديد المصروفات الفعلية بحيث لا يؤدي إلى زيادة تئول إلى فائدة۔ والأصل أن يحمل كل قرض بتكلفته الخاصة به إلا إذا تعسر ذلك، كما في أوعية الإقراض المشتركة، فلامانع من تحميل التكاليف الإجمالية المباشرة عن جميع القروض على إجمالي المبالغ۔ ويجب أن تعتمد طريقة التحديد التفصيلية من هيئة الرقابة الشرعية، بالتنسيق مع جهة المحاسبة، وذلك بتوزيع المصروفات على مجموع القروض ويحمل كل قرض بنسبته، على أن تعرض هذه الحالات على الهيئة مع المستندات المناسبة۔

فتاوی جامعة الرشيد كراچی: (رقم الفتوی: 64298)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 55 Jan 06, 2025

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Loan, Interest, Gambling & Insurance

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2025.