سوال:
محترم مفتی صاحب! کسی یقیناً حرام کمائی والے شخص نے مجھ سے چند دنوں کے لیے قرضہ لیا، پھر اس نے وہ پیسے واپس دے دیے تو کیا یہ پیسے میرے لیے حلال ہیں اور کیا اس شخص کو قرضہ دینا جائز ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر واقعتاً مذکورہ شخص کی کل یا غالب کمائی حرام کی ہو تو ایسے شخص کو قرض دینا یا اس کی حرام کمائی سے قرض وصول کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر وہ کہتا ہے کہ تمہارا قرض حلال رقم سے ادا کر رہا ہوں یا کسی حلال کمائی والے سے قرض لے کر آپ کے پیسے لوٹائے تو ایسی صورت میں آپ کے لیے اس سے قرض وصول کرنا شرعاً جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (342/5، ط: دار الفكر)
أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع.
رد المحتار: (385/6، ط: دار الفكر)
(قوله وفي الأشباه إلخ) قال الشيخ عبد الوهاب الشعراني في كتاب المنن: وما نقل عن بعض الحنفية من أن الحرام لا يتعدى إلى ذمتين سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما من رأى المكاس يأخذ من أحد شيئا من المكس، ثم يعطيه آخر ثم يأخذه من ذلك الآخر فهو حرام اه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی