سوال:
ایک خاتون جس کے چار بچے ہیں، وہ اپنی والدہ کے زیر اثر عدالت میں خلع کا دعویٰ دائر کر دیتی ہے، چند دن بعد میاں بیوی میں صلح ہو جاتی ہے اور وہ رجوع کر لیتے ہیں لیکن اس بات کا علم خاتون کی والدہ کو نہیں اور نہ ہی حالات کی وجہ سے وہ خاتون اپنی والدہ کو اس بارے میں بتا سکتی ہے جبکہ دونوں والدہ کے علم اور رضا مندی کے بغیر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ خاتون اپنی والدہ کی ناراضگی کی وجہ سے خلع کا کیس واپس لینے سے خوف زدہ ہے، اگر اس صورت میں عدالت خلع کی ڈگری جاری کر دے تو اس صورت میں شادی پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ کیا میاں بیوی کا اکٹھا رہنا درست ہے؟ جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ شرعاً خلع کے درست ہونے کے لیے میاں بیوی کی رضامندی ضروری ہے، لہذا میاں بیوی کی رضامندی کے بغیر شرعاً خلع واقع نہیں ہوگا، بلکہ اس صورت میں ان کا نکاح بدستور برقرار رہے گا، اور میاں بیوی کی حیثیت سے ایک ساتھ رہنا درست ہوگا۔
تاہم بہتر یہ ہے کہ مذکورہ خاتون اپنی والدہ کو کسی طریقہ سے راضی کرکے اپنے کیس کو واپس لے، تاکہ کل کہیں ان کے لیے نکاح کے حوالہ سے قانونی دشواریاں پیدا نہ ہو جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
رد المحتار: (441/3، ط: دار الفکر)
وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (7015/9، ط: دار الفکر)
وقد اعتبر الحنفية ركن الخلع هو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی