resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: والد کے منع کرنے کے باوجود بھائی کی مرضی اور پسند کا نکاح کرنا(22643-No)

سوال: مفتی صاحب! ایک مسئلہ بارے شرعی رہنمائی درکار ہے۔ ایک لڑکی جس کی عمر تقریبا 20 سال ہے اور اس کے بھائی کی عمر تقریبا 19 سال ہے، وہ دونوں شرعی احکامات پر کاربند ہیں، جبکہ ان کے گھر کا ماحول اسلامی نہیں ہے، سب سے بڑی شرعی قباحت جو پائی جاتی ہے وہ ہے ان کے ہمسائے کا گھر کے سربراہ کی موجودگی یا عدم موجودگی میں دن یا رات بلا روک ٹوک گھر میں آنا جانا اور لڑکی کی والدہ کا اپنے خاوند اور اولاد کی موجودگی یا عدم موجودگی میں ہمسائے کے ساتھ موٹر سائیکل پر شہر وغیرہ کا چکر لگا آنا۔
لڑکی کی دینداری کی وجہ سے ایک ایسے فرد کا رشتہ اس کے گھر آیا جو شرعی احکامات کا نہ صرف پابند بلکہ ان کے فروغ کے لئے بھی کوشاں ہے۔ لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی سے رشتے کی بابت مشورہ کیا جس کے جواب میں لڑکی نے مکمل رضامندی کا اظہار کیا، لڑکی کی رضامندی دیکھ کر باپ نے بھی بہت خوشی کا اظہار کیا، لیکن چند دن کے بعد جب ہمسائے کو پتہ چلا کہ اس لڑکی کا رشتہ ایسے فرد سے ہونے جا رہا ہے جو کہ اسلامی احکامات پہ عمل کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے گھر کا ماحول بھی اسلامی ہو جائے گا تو اس ہمسائے نے لڑکی کی والدہ کے ساتھ ساز باز کی اور اس کے خاوند کو اپنے ساتھ ملا کر اس رشتے سے انکار کروا دیا۔ لڑکی اور اس کا بھائی چاہتا ہے کہ اسی جگہ رشتہ ہو جائے جب کہ لڑکی کی والدہ، اس کا ہمسایہ اور والد مان نہیں رہے۔ لڑکی کے اعزاء و اقارب اور معززین علاقہ نے لڑکی کے والد کو آمادہ کرنے کے لے بہت کوشش کی لیکن وہ بیوی اور ہمسایہ کی وجہ سے مکمل انکاری ہے۔
یان کردہ صورتحال کے پیش نظر تین سوالات بارے شرعی رہنمائی درکار ہے:
1) شریعت اسلامیہ ایسے والدین کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے؟
2) کیا اولاد کا والدین کو محبت سے سمجھانا بےادبی کے زمرے میں آتا ہے؟
3) کیا ایسے والد کی ولایت نکاح میں معتبر ہوگی یا لڑکی کا بھائی خود ولی بن کر لڑکی کا نکاح شریعت پر کاربند شخص سےکروا سکتا ہے؟

جواب: واضح رہے کہ شرعا نامحرم مردوں سے پردہ کرنا ضروری ہے، اس لیے پوچھی گئی صورت میں نامحرم ہمسائے کا پردہ کا اہتمام کیے بغیر گھر میں آنا اور خاتونِ خانہ کا اس کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر بازار جانا بالکل ناجائز ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔
جہاں تک رشتے کا تعلق ہے تو لڑکی کے والدین کو چاہیے کہ وہ رشتے کی تلاش میں دینداری اور کفو وغیرہ کو مدنظر رکھیں، انہیں چاہیے کہ جہاں بھی کفو کے ساتھ دیندار لڑکے کا رشتہ میسر ہو نکاح کردیں۔ اس وضاحت کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں:
(1) اگر واقعتاً کوئی والدین ایسے ہوں جو محض ہمسائے کی غلط باتوں میں آکر بلاوجہ اچھے اور دیندار رشتے سے انکار کرتے ہوں تو یہ رویہ شرعاً غلط ہے۔
(2) شریعت نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ادب کے تعلق کا حکم دیا ہے، اس لیے آداب اور حسنِ سلوک کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر والدین کو کوئی مناسب مشورہ دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

(3) لڑکی اپنے والدین کی اجازت کے بغیر بھائی کے ساتھ مل کر ایسا اقدام ہرگز نہ کرے، چونکہ اس کے والدین موجود ہیں اس لیے وہی اس کے سرپرست ہیں، شریعت کے مطابق سنت طریقہ یہ ہے کہ والدین ہی نکاح کرائیں۔
تاہم اگر لڑکی عاقل بالغ اور سمجھدار ہے، اور وہ والدین کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح خود کرلیتی ہے یا اس کا بھائی کرادیتا ہے تو اگر یہ نکاح کفو میں ہو تو منعقد ہوجائے گا، مگر والدین جو اصل سرپرست ہیں ان کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا بے حیائی کا کام ہے اور اگر یہ نکاح کفو میں نہ ہوا ہو تو والدین کو اولاد ہونے سے پہلے پہلے عدالت سے نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (3/55، ط: دار الفكر)
(وهو)أي الولي(شرط)صحة(نكاح صغيرومجنون ورقيق)لامكلفة(فنفذنكاح حرةمكلفةبلا)رضا(ولي).............(ويفتى)في غير الكفء (بعدم جوازه أصلا)وهو المختار للفتوى (لفساد الزمان).

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah