سوال:
مفتی صاحب! سوال یہ ہے کہ مال صرف ایک بندہ دے رہا ہے اور باقی افراد اس کو استعمال میں لارہے ہیں تو جس نے رقم لگائی ہے اس کی زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم آمدنی کا کتنا تناسب ہونا چاہیے؟ مال لگانے والا خود کام نہیں کرے گا۔
جواب: سوال میں ذکر کی گئی صورت "مضاربت" کی ہے، جس میں ایک پارٹی کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے، اصولی طور پر مضاربت کا معاملہ جائز ہے، جہاں تک نفع کی تقسیم کا تعلق ہے تو چونکہ نفع کی تقسیم کے سلسلے میں شرعاً کوئی مخصوص تناسب لازم نہیں کیا گیا، لہذا فریقین باہمی رضامندی سے کوئی بھی فیصدی تناسب طے کرسکتے ہیں، نیز نقصان ہونے کی صورت میں (اگر کاروبار میں پہلے نفع ہوا ہو تو) حاصل شدہ نفع سے نقصان کی تلافی کی جائے گی، یہاں تک کہ اصل سرمایہ (رأس المال) کی مقدار پوری کرلی جائے، اگر اصل سرمایہ کی مقدار پوری ہونے کے بعد بھی نقصان پورا نہ ہو تو یہ نقصان رب المال (سرمایہ لگانے والے) کا شمار کیا جائے گا، اس میں دوسرے فریق(مضارب) کو شریک نہیں ٹہرایا جاسکتا، البتہ اگر نقصان اسی کی غفلت و کوتاہی کی وجہ سے ہوا ہو تو ایسی صورت میں سارے نقصان کا ذمہ دار وہی (مضارب) ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (430/8، ط: زکریا)
هى عقد شرکة في الربح بمال من جانب رب المال وعمل من جانب المضارب۔
بدائع الصنائع: (111/5، ط: زکریا)
وشرط الوضیعة علیهما شرط فاسد؛ لأن الوضیعة جزء هالك من المال فلا یکون إلا علی رب المال.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (المادة: 1428، 459/3، ط: دار الجيل)
يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما فلا يعتبر ذلك الشرط.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی