سوال:
میرا سوال تھوڑا سا لمبا ہے مگر نوعیت ایسی ہے کہ مختصر نہیں سمجھا سکتا۔ میری شادی والدین کی رضامندی سے ہوئی اور لڑکی والوں کے والدین کی رضامندی سے بھی، میں شادی کے وقت بے روزگار تھا تو میرے باپ نے میرے سسر سے یہ کہہ کر نکاح کے لئے راضی کروایا کہ لڑکی کی ذمہ داری میں یعنی میرا باپ اٹھائے گا تو میرا سسر مان گیا۔ شادی ہونے کے بعد گھر کا راشن، بجلی، گیس اور گھر سب والد صاحب چلاتے ہیں، میرے والدین نے اس کے علاوہ کوئی بھی خرچہ دینے سے انکار کر دیا، انہوں نے کہا کہ بس روٹی کپڑا مکان دینے کا بولا تھا، میں ابھی بھی بے روزگار ہوں اور بدقسمتی سے دارومدار والدین پر ہے، اس بات پر گھر میں لڑائی بھی ہوئی کیونکہ میری والدہ سے میں نے بات کی تھی شادی سے پہلے کہ وہ والد صاحب سے میرے لیے ماہانہ کچھ رقم ادھار لے کر مجھے دے دیا کریں، بعد میں مجھے روزگار ملتا ہے تو لوٹا دوں گا، اس بات سے والدہ شادی کے بعد مکر گئیں، بیوی کو جب یہ سب پتہ چلا کہ میرے گھر والوں سے نہیں بنتی تو کہنے لگی کہ روٹی کپڑا مکان تو میرے والد صاحب بھی مجھے دے رہے تھے، اب میری ایک بیٹی بھی ہے، بیوی میری اکثر باتیں نہیں مانتی. اپنی ان سہیلیوں کے بارے میں بتاتی ہے جو بہت خوش ہیں، جن کے شوہر کام کرتے ہیں، ان کو خرچہ دیتے ہیں اور جن کے سسرال والے بہو پر جان چھڑکتے ہیں. میں نے کئی دفعہ بیوی کو سمجھایا کہ دوسرے گھروں کو مت دیکھو اور یہ کہ مجھے میرے گھر والوں کے خلاف ہر روز شکایت مت کرو. جو انہوں نے میرے ساتھ کیا مجھے پتہ ہے، اس سارے عرصہ کے دوران میں نے نوکری کاروبار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ابھی تک کامیابی نہیں ملی. بیوی کو جب کہتا ہوں کہ تمہاری باتوں سے مجھے تکلیف ہوتی ہے یا میں ناراض ہوتا ہوں تو رونا دھونا شروع کر دیتی ہے کہ میں ایسی نہیں آپ غلط سمجھ رہے ہیں، جب میں اپنا دل صاف کر لیتا ہوں تو اگلے لمحے اس کے وہی کرتوت ہوتے ہیں، میں نے یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر بے شمار ویڈیو دیکھیں جس میں شیعہ سے لے کر دیوبندی، بریلوی، مالکی سب فرقوں والے بیان سنے. سب یہی بول رہے ہیں کہ بیوی صرف ہمبستری کے لیے ہے بس، اس کے علاوہ اس پر کوئی کام فرض نہیں. اگر کرے تو شوہر پر اس کا احسان ہوگا اور اگر نہ کرے تو شوہر ملازم پکڑ لے. میری بیوی گھر کا سالن پکاتی ہے جس میں میرے تین بھائی، ایک بہن اور والدین شامل ہیں اور ان کے برتن دھوتی ہے. میرے کام بھی کرتی ہے اور میری بیٹی کا خیال بھی رکھتی ہے، میں دوہری تلوار پر ہوں، بےروزگاری کی وجہ سے ملازم بھی نہیں پکڑ سکتا اور بیوی ہر روز طعنے اور لان تعن کرتی ہے، میں نے اسے کہا کہ اگر وہ چاہے تو میں اسے طلاق دے سکتا ہوں تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا، کہا کہ تمہیں میری ہر بار سننی بھی پڑے گی اور مجھے طلاق کی دھمکی بھی نہیں دو گے، اوپر ویڈیو میں جن علماء کو میں نے سنا ان کے مطابق میری بیوی کا مجھ پر احسان ہے، دوسری طرف بیوی کے خلاف میرا دل نفرت سے بھر گیا ہے، ازدواجی تعلق قائم کرنے کا بالکل دل نہیں کر رہا، والدین نے مجھے لعن طعن کی کہ شرم نہیں آتی شادی کے بعد بھی بےروزگار بیٹھے ہو،حالانکہ شادی سے پہلے میں نے اس شرط پر شادی کی کہ والدہ مجھے اس وقت تک رقم ادھار دے گی جب تک مجھے ملازمت نہیں مل جاتی. آخری بات یہ کہ بہت لڑائی کے بعد ابھی والد صاحب نے مجھے پورے دو سال میں اتنے پیسے دیے ہیں جو ملا کر میری بیوی کے زیور کی زکات نکل سکتی ہے، میری بیوی کو سونا بھی میرے والد صاحب نے بنا کر دیا تھا، زکوة کی رقم 60 ہزار بنتی ہے، پیسے میرے والد صاحب مجھے دیتے ہیں اور میں لا کر اپنی بیوی کو دیتا ہوں، میں نے بیوی کو کہا کہ مجھے والد صاحب کے پیسوں سے نفرت ہے تو اس نے کہا مجھے بھی ہے، صرف اس لئے رکھ رہی ہوں تاکہ زکوة نکل سکے، باقی میں نے بہت سارا ادھار لوگوں سے لیا ہے بیوی کے چھوٹی چھوٹی ضرورت اور اپنی اسی سے پوری کر رہا ہوں، میری بیوی اپنے ڈاکٹر بھائی کے پاس گھومنے لاہور گئی، میں نے اسے 40 ہزار اپنے ادھار والے پیسوں سے دیے اور والد صاحب نے پانچ ہزار روپے دیے، 10 ہزار کا ٹکٹ بھی کر وایا، 20 دن گزار کر آئی اور بولی کہ میرے بھائی نے اپنی بیوی پر میرے سامنے پیسے اڑائے. کاش تم وہاں ہوتے اور دیکھتے پھر پتا چلتا کہ شوہر کیا ہوتا ہے۔ اس بات کے بعد میں بالکل بھی اپنی بیوی کو معاف نہیں کرنا چاہتا، کتاب کھول کر اور ویڈیو دیکھ کر دیکھتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ بیوی کے مجھ پر بہت سارے احسانات ہیں اور ہمبستری کے علاوہ اس پر کچھ فرض نہیں اور خود میرا حال یہ ہے کہ دل اللہ، رسول اور دین اسلام کےخلاف کرنے پر تلا ہوا ہے کہ یہ کیسا دین ہے کہ بیوی کو اتنے سارے حقوق دیے اور مرد پر اتنی ساری ذمہ داری ڈال دی؟
اس ضمن میں میرے سوال یہ ہیں:
1) اس سارے معاملے میں میری کیا ذمہ داری بنتی ہے
2) کیا میں بیوی کے حقوق ادا کر رہا ہوں؟
3) کیا بیوی جو کام کر رہی ہے وہ احسان ہے یا ذمہ داری؟
4) کیا واقعی اسلام نے بیوی کو صرف ہمبستری کے لیے رکھا ہے اور باقی سارا کام ملازمین سے کروائیں جائیں؟
5) اب جب کہ میں بےروزگار ہوں تو کیا منہ کالا کر کے بیٹھ جاؤں اور بیوی کے طعنے سنوں اس لیے کہ جو مرد کماتا نہیں اس کی نہ تو اسلام میں کوئی عزت ہے کیونکہ نان نفقہ کی ذمہ داری پوری نہیں کرتا اور نہ ہی دنیا میں کوئی عزت ہے؟
جواب: واضح رہے کہ دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اور اس نے زندگی کے ہر شعبہ سے منسلک افراد کی ایسی ذمہ داریاں اور حقوق کو بیان کیا ہے کہ جن پر حقیقی معنی میں عمل کرنے والے کی زندگی سکون واطمینان سے خالی نہیں رہ سکتی، لیکن بدقسمتی سے بہت سے مسلمان دینی تعلیمات کو پہچاننے اور ان پر عمل کرنے سے اتنے دور ہوگئے ہیں کہ وہ بجائے اپنی اس غلطی کے اعتراف کرنے کے اسلام کو (نعوذ باللہ) موردِ الزام ٹہراتے ہیں، جوکہ انتہائی نامناسب اور تباکن رویّہ ہے۔
سوال میں بیوی کے حقوق کے متعلق ذکر کردہ سوالات دراصل ہمارے اسی رویّہ کا نتیجہ ہے، حالانکہ شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی کے حقوق کو ایسی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ان کو پڑھ کر یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ دینِ اسلام نے بیوی پر صرف حقوقِ زوجیت کی ادائیگی کو نہیں رکھا ہے، بلکہ جس طرح سے شوہر پر کئی ذمہ داریوں کو لازم کیا ہے، اسی طرح سے بیوی پر بھی شوہر کے کئی حقوق کی ادائیگی کو لازم قرار دیا ہے، منجملہ ان میں سے یہ ہے کہ بیوی شوہر سے اس کی استطاعت سے زیادہ نان نفقہ کا مطالبہ نہ کرے، اور نہ ہی شوہر کی تنگ دستی کی وجہ سے اس پر لعن طعن کرے، نیز دیانتاً و اخلاقاً اگرچہ شوہر کی خدمت اور گھریلو کام کاج حکم کے درجہ میں بیوی پر لازم نہیں ہے، لیکن دیانتاً واخلاقاً اس کی ذمہ داری ٹہرائی ہے، لہذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اسلام نے عورت کو صرف ہمبستری کے لیے رکھا ہے، اور اس کے علاوہ کوئی اور ذمہ داری اس پر عائد نہیں کی ہے، بلکہ رشتہ ازدواج کو احسن طریقہ سے نبھانے کے لیے توازن کے ساتھ دونوں پر حقوق اور ذمہ داریوں کو عائد کیا ہے، اس لیے جہاں بیوی کو آپ کے حقوق کی ادائیگی کی رعایت رکھنا لازم ہے، وہی آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ بیوی کے دیگر حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کے نان نفقہ اور اپنے گھر کے نظام چلانے کے لیے والدین یا کسی اور سے قرض لینے کے بجائے اپنے روزگار کا سلسلہ (اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہو) ضرور شروع کریں، ایسے موقع پر ایک شوہر کی یہی ذمہ داری بنتی ہے۔
امید ہے کہ اس تفصیل سے آپ کو تمام سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
إحياء العلوم: (42/2، ط: دار المعرفة)
أما الزوج فعليه مراعاة الاعتدال والأدب في اثني عشر أمرا في الوليمة والمعاشرة والدعابة والسياسة والغيرة والنفقة والتعليم والقسم والتأديب في النشوز والوقاع والولادة والمفارقة بالطلاق
الأدب الأول الوليمة وهي مستحبة قال أنس رضي الله عنه رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم على عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه أثر صفرة فقال {ما هذا} فقال تزوجت امرأة على وزن نواة من ذهب...........................................فحقوق الزوج على الزوجة كثيرة وأهمها أمران أحدهما الصيانة والستر
والآخر ترك المطالبة بما وراء الحاجة والتعفف عن كسبه إذا كان حراما وهكذا كانت عادة النساء في السلف كان الرجل إذا خرج من منزله تقول له امرأته أو ابنته إياك وكسب الحرام فإنا نصبر على الجوع والضر ولا نصبر على النار
وهم رجل من السلف بالسفر فكره جيرانه سفره فقالوا لزوجته لم ترضين بسفره ولم يدع لك نفقة فقالت زوجي منذ عرفته عرفته أكالا وما عرفته رزاقا ولي رب رزاق يذهب الأكال ويبقى الرزاق
وخطبت رابعة بنت إسماعيل أحمد بن أبي الحواري فكره ذلك لما كان فيه من العبادة وقال لها والله مالي همة في النساء لشغلي بحالي فقالت إني لأشغل بحالي منك ومالي شهوة ولكن ورثت.......................فالقول الجامع في آداب المرأة من غير تطويل أن تكون قاعدة في قعر بيتها لازمة لمغزلها لا يكثر صعودها واطلاعها قليلة الكلام لجيرانها لا تدخل عليهم إلا في حال يوجب الدخول تحفظ بعلها في غيبته وتطلب مسرته في جميع أمورها ولا تخونه في نفسها وماله ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه فإن خرجت بإذنه فمختفية في هيئة رئة تطلب المواضع الخالية دون الشوارع والأسواق محترزة من أن يسمع غريب صوتها أو يعرفها بشخصها لا تتعرف إلى صديق بعلها في حاجاتها بل تتنكر على من تظن أنه يعرفها أو تعرفه همها صلاح شأنها وتدبير بيتها مقبلة على صلاتها وصيامها وإذا استأذن صديق لبعلها على الباب وليس البعل حاضرا لم تستفهم ولم تعاوده في الكلام غيرة على نفسها وبعلها وتكون قانعة من زوجها بما رزق الله وتقدم حقه على حق نفسها وحق سائر أقاربها منتظفة في نفسها مستعدة في الأحوال كلها للتمتع بها إن شاء مشفقة على أولادها حافظة للستر عليهم قصيرة اللسان عن سب الأولاد ومراجعة الزوج
وقد قال صلى الله عليه وسلم أنا وامرأة سفعاء الخدين كهاتين في الجنة امرأة آمت من زوجها وحبست نفسها على بناتها حتى ثابوا أو ماتوا.
وقال صلى الله عليه وسلم حرم الله على كل آدمي الجنة يدخلها قبلي غير أني أنظر عن يميني فإذا امرأة تبادرني إلى باب الجنة فأقول ما لهذه تبادرني فيقال لي يا محمد هذه امرأة كانت حسناء جميلة وكان عندها يتامى لها فصبرت عليهن حتى بلغ أمرهن الذي بلغ فشكر الله لها ذلك.
ومن آدابها أن لا تتفاخر على الزوج بجمالها ولا تزدري زوجها لقبحه فقد روي أن الأصمعي قال دخلت البادية فإذا أنا بامرأة من أحسن الناس وجها تحت رجل من أقبح الناس وجها فقلت لها يا هذه أترضين لنفسك أن تكوني تحت مثله فقالت يا هذا اسكت فقد أسأت في قولك لعله أحسن فيما بينه وبين خالقه فجعلني ثوابه أو لعلي أسأت فيما بيني وبين خالقي فجعله عقوبتي أفلا أرضى بما رضي الله لي فأسكتتني.
امداد الفتاوی: (216/2، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)
نجم الفتاویٰ: (444/5، ط: شعبہ نشر و اشاعت دارالعلوم یاسین القرآن)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی