سوال:
آج سے تقریباً سات سال قبل سائل نے اپنی بیٹی کا نکاح ایک شخص سے کردیا، رخصتی کے دس، پندرہ دن بعد سائل کے داماد نے ایک شخص کو معمولی تلخ کلامی پر قتل کردیا، جس پر پولیس نے اُنہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا، (چونکہ سائل کا تعلق گلگت سے ہے اور داماد کا راوالپنڈی سے) داماد کے گرفتاری کے بعد وہاں سائل کی بیٹی کے ساتھ کوئی محرم شخص موجود نہیں تھا، اس لئے سائل اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ گلگت لے آیا اور تقریباً عرصہ سات سال سے سائل کے ساتھ رہتی ہے، ان سات سالوں میں نان نفقہ تو دور کی بات ہے کسی نے خبر تک نہیں لی، جس بنا پر سائل نے مجبورا سیول کورٹ میں خلع کیلئے درخواست دائر کی، سیول کورٹ نے تین چار بار داماد کو سمن جاری کیا، مگر کوئی جواب نہیں ملا، اس پر سیول کورٹ نے سائل کی بیٹی کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کردی۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس خلع کی ڈگری کے بعد کیا سائل اپنی بیٹی کا شرعا کسی دوسری جگہ نکاح کرسکتا ہے یا نہیں؟ وضاحت فرمائیں۔
تنقیح:
محترم! آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ
1) خلع کی درخواست کس بنیاد پر داخل کی گئی تھی؟
2) شوہر کو کیا واقعتاً کورٹ کا سمن پہنچ گیا تھا اور کیا قانوناً شوہر کی جیل سے کورٹ میں پیشی ممکن تھی؟
3) نیز کیا مدعی نے عدالت میں گواہوں سے ثابت کیا تھا کہ شوہر نان و نفقہ نہیں دے رہا؟ اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:چونکہ شوہر جیل میں ہے اور کوئی نان نفقہ دینے والا نہیں ، نیز سمن شوہر کو پہنچا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں کوئی معلومات نہیں، کیونکہ بیوی کا تعلق گلگت سے ہے اور شوہر پنڈی کا رہنے والا ہے اور اڈیالہ جیل میں قید ہے
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں جب تک اس بات کی یقین دہانی نہ ہو جائے کہ واقعتاً شوہر کو اس حوالے سے عدالت کا سمن کئی بار پہنچ چکا ہے اور باوجود قدرت کے شوہر عدالت میں حاضر نہیں ہوا ہے اور نہ ہی بیوی کے لیے نان نفقہ کا کوئی انتظام کرتا ہے اور نہ ہی بیوی نان نفقہ معاف کرتی ہے تو ایسی صورت میں عدالت کا یہ فیصلہ شرعاً معتبر ہوگا اور عورت عدالت کے فسخ نکاح کے فیصلے کے وقت سے عدت گزارنے کے بعد کسی اور جگہ نکاح کرسکتی ہے، لیکن اگر شوہر کو اس بارے میں کوئی علم نہ ہو تو یہ محض یکطرفہ خلع ہوگا جو کہ شرعاً معتبر نہیں ہے، ایسی صورت میں عورت کے لیے کسی اور جگہ نکاح کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (591/3، ط: دار الفکر)
قلت: ويؤيده ما قدمناه عن التحفة حيث رد على شرح المنهج بأنه خلاف المنقول، فعلى هذا ما يقع في زماننا من فسخ القاضي الشافعي بالغيبة لا يصح، وليس للحنفي تنفيذه سواء بنى على إثبات الفقر أو على عجز المرأة عن تحصيل النفقة منه بسبب غيبته، فليتنبه لذلك، نعم يصح الثاني عند أحمد كما ذكر في كتب مذهبه
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی