سوال:
ایک عورت کے خاوند نے کہا کہ اگر تو نے کسی غیر محرم سے بات کی تو تجھے طلاق ہے، یہ امریکہ کے رہنے والے ہیں، ادھر اسکول میں بچوں کو لانا لے جانا ہے تو ادھر بھی نامحرم سے بات تو ہو جاتی ہے، اسی طرح ان کا ایک ریسٹورنٹ ہے جس میں مرد حضرات بھی کام کرتے ہیں، ان سے بھی کام لینے کے اعتبار سے بات چیت کرنی پڑتی ہے اور ایسے ہی بہنوئی، رشتہ داروں میں غیر محرموں سے بھی بات ہو جاتی ہے تو اس صورت میں کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟ اس طلاق سے بچنے کا کوئی آسان طریقہ ہو تو بتادیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کے بعد اس سے رجوع نہیں کیا جاسکتا، لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر شوہر نے نامحرم سے بات کرنے پر ایک طلاق کو معلق کیا ہو تو ایک طلاق اور اگر تین طلاقوں کو معلق کیا ہو تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، البتہ ایک طلاق معلق کرنے کی صورت میں شوہر عدت کے اندر اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہے تو رجوع کرسکتا ہے، اس صورت میں ایک طلاق واقع ہونے کے بعد بیوی کے دوبارہ غیر محرم سے بات کرنے کی صورت میں دوبارہ طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن اگر شوہر نے تین طلاقوں کو معلق کیا ہو تو بیوی کے نامحرم سے بات کرنے پر تین طلاقیں واقع ہوکر حرمت مغلظہ ثابت ہوجائے گی اور شوہر کو دوبارہ رجوع کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔
تین طلاقوں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق دے کر چھوڑدے، جب اس کی عدت پوری ہوجائے تو اس کی بیوی نامحرم سے بات کرلے، اس تدبیر سے تعلیق ختم ہوجائے گی اور بیوی تین طلاقوں سے بچ جائے گی اور آئندہ بیوی کے نامحرم سے بات کرنے کی صورت میں اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اس کے بعد شوہر نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرلے، تاہم اس صورت اور ایک طلاق کو معلق کرنے کی صورت میں آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (30/3، ط: دار الكتب العلمية)
وأما حكم هذه اليمين فحكمها واحد وهو وقوع الطلاق أو العتاق المعلق عند وجود الشرط فتبين أن حكم هذه اليمين وقوع الطلاق والعتاق المعلق بالشرط، ثم نبين أعيان الشروط التي تعلق بها الطلاق والعتاق على التفصيل، ومعنى كل واحد منهما حتى إذا وجد ذلك المعنى يوجد الشرط فيقع الطلاق والعتاق وإلا فلا، أما الأول فلأن اليمين بالطلاق والعتاق هو تعليق الطلاق والعتاق بالشرط ومعنى تعليقهما بالشرط - وهو إيقاع الطلاق والعتاق في زمان ما بعد الشرط - لا يعقل له معنى آخر، فإذا وجد ركن الإيقاع مع شرائطه لا بد من الوقوع عند الشرط.
الھندیة: (420/1، ط: دار الفکر)
و وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.
البحر الرائق: (باب التعليق في الطلاق، 15/4، ط: دار الكتاب الاسلامي)
(قوله ففيها إن وجد الشرط انتهت اليمين) أي في ألفاظ الشرط إن وجد المعلق عليه انحلت اليمين، وحنث وانتهت لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغة فبوجود الفعل مرة يتم الشرط، ولا يتم بقاء اليمين بدونه، وإذا تم وقع الحنث فلا يتصور الحنث مرة أخرى إلا بيمين أخرى أو بعموم تلك اليمين.
الدر المختار: (355/3، ط: دار الفکر)
فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی