سوال:
میں طاہر اپنی بیوی کو منانے کی کوشش میں تھا، میری بیوی سے اکثر میری لڑائی ہوتی تھی، میں غصے میں اکثر اپنی بیوی کو طلاق کی دھمکیاں دیتا تھا، اس روز بھی میں نے اپنی بیوی کے ساتھ لڑائی کی اور میری بیوی نے مجھے کہا کہ تم مجھے روز روز طلا ق کی دھمکیاں دیتے ہو، آج مجھے طلاق دے تو دو، میں بیوی کو منانے کے لیے پانی اس کے پاس لے کے بیٹھا تھا اور اس کو بہلانے اور اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا، میں نے اپنی بیوی کو پانی دیا، اس نے پانی ہاتھ سے جھٹک دیا اور کہا نہیں مجھے طلاق دو۔
میں نے اس کو کہا( دی) چپ کر خدا کی بندی اور میری نیت میں نہ طلاق تھی، نہ مجھے اسی کا اندازہ تھا کہ اس سے طلاق ہو جاتی ہے اورمیرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں اس کو طلاق کی نیت سے یہ کہہ رہا ہوں اور آج تک یہ بات میرے دماغ میں نہیں آئی، کیونکہ میرا نہ ارادہ تھا، میں بس اس کو یہ بات بھلا رہا تھا، اس نے میرے بھائی کو بتادیا کہ
اس نے اس طرح سے مجھے طلاق دی ہے، اس کے بعد دوسرے ہی دن ہماری صلح ہوگئی، اور ہم رہنا شروع ہوگئے پیار سے، اس کے کئی ماہ کے بعد اب میں نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دی ہیں۔
تو میں یہ جاننا چاہتا ہوں
اس پر میرے بھائی نے مجھے بتایا تمہاری بیوی نے مجھے بتایا تھا تم نے اس سے پہلے بھی اسے ایک طلاق دی ہے۔
تو میں نے اس بات کو بنا ارادہ کے کہا تھا، نہ میں غصے میں تھا، میں تو صرف اس کو بہلا رہا تھا کہ کسی طرح سے وہ چپ ہوجائے، کیونکہ وہ بہت رو رہی تھی، اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں، کیا وہ طلاق میں آئے گی؟ کیونکہ میرا تو کوئی ارادہ بھی نہ تھا اور نہ میری سوچ تھی، اب مجھے یہ جاننا ہے کہ دین میں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ مفتی عالم الغیب نہیں ہوتا، بلکہ وہ سوال میں سائل کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق جواب دیتا ہے، لہذا سوال میں بیان کردہ تفصیلات کے سچا یا خلافِ واقع ہونے کی ذمہ داری سوال پوچھنے والے پر ہوتی ہے۔
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کا اپنی بیوی کے صریح طلاق کے مطالبہ پر یہ کہنا کہ "دیدی" تو اس سے ایک طلاق واقع ہوگئی، چاہے آپ کی طلاق دینے کی نیت تھی یا نہ تھی، کیونکہ صریح طلاق میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا ہے، پھر اس کے بعد مزید دو طلاقیں دینے سے آپ کی بیوی پر تین طلاقیں مغلظہ واقع ہو گئی ہیں، جس کے نتیجہ میں وہ آپ پر حرام ہوگئی ہے، اب آپ دونوں آپس میں میاں بیوی کے تعلقات قائم نہیں رکھ سکتے۔
ہاں ! اگر وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرے، پھر وہ اسے اپنی مرضی سے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہو جائے، پھر وہ عورت عدت گزار کر آپ سے نکاح کرے، تو ایسا کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 230)
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ".۔۔۔۔الخ
تفسیر روح المعانی: (سورۃ البقرۃ)
"فإن طلقہا‘‘ متعلقا بقولہ سبحانہ ’’الطلاق مرتان‘‘ …… فلاتحل لہ من بعد‘‘ أي من بعد ذلک التطلیق ’’حتی تنکح زوجاًغیرہ‘‘ أي تتزوج زوجا غیرہ ویجامعہا".
أحكام القرآن: (سورۃ البقرۃ، إیقاع الطلاق الثلاث معا)
"قولہ تعالیٰ: ’’فإن طلقہافلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ‘‘ منتظم لمعان: منہا تحریمہا علی المطلق ثلاثا حتی تنکح زوجا غیرہ، مفید في شرط ارتفاع التحریم الواقع بالطلاق الثلاث العقد والوطء جمیعا".
بذل المجھود: (276/3، ط: رشیدیة)
"قال ابن السید: لو کان کذٰلک لم یقع علی أحد طلاق؛ لأن أحداً لا یطلق حتی یغضب".
فتح الباري: (باب الطلاق في الاغلاق و المکرہ، 489/1)
"وقال الفارسي في مجمع الغرائب: إن طلاق الناس غالباً إنما ہو في حالۃ الغضب، وقال ابن المرابط: ولو جاز عدم وقوع طلاق الغضبان لکان لکل أحد أن یقول فیما جناہ: کنت غضبانا، وأراد بذٰلک الرد علی من قال أن الطلاق في الغضب لا یقع".
رد المحتار: (117/8)
’’ وفي البحر عن المحيط: لو قالت لزوجها: طلقني، فأشار إليها بثلاث أصابع، وأراد به ثلاث تطليقات لا يقع مالم يقل هكذا؛ لأنه لو وقع وقع بالضمير، والطلاق لايقع بالضمير اه‘‘.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی