سوال:
مفتی صاحب ! کسی نے کہا ہے کہ اسلام میں انشورنس جائز نہیں ہے، تصدیق فرما دیں۔
جواب: انشورنس خواہ جان کا ہو یامال کا، ہر ایک میں عموماً جوا اور سود پائے جاتے ہیں اور یہ دونوں گناہ کبیرہ ہیں، اس لئے شرعاً انشورنس کی اجازت نہیں۔
البتہ موجودہ زمانے کے بعض فقہاء کرام نے انشورنس کا شرعی متبادل" تکافل" تجویز کیا ہے، اگر زیادہ مجبوری ہو اور انشورنس کرائے بغیر چارہ نہ ہو تو ایسی تکافل کمپنی کی پالیسی لینے کی گنجائش ہے، جو مستند مفتیان کرام کے زیر نگرانی کام کر رہی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 278- 279- 280)
يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الله َ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَo فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَo وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
صحیح مسلم: (کتاب المساقات، 1219/3، ط: دار احیاء التراث)
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی