سوال:
ایک سرکاری سکول میں چپڑاسی ہے، اس کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار روپے ہے، مگر وہ خود کام پر جانے کے بجائے، پانچ ہزار روپے کے عوض کسی آدمی کو رکھا ہوا ہے، وہی دوسرا شخص چپڑاسی کے کام انجام دے رہا ہے، اب اس چپڑاسی کا یہ عمل درست ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کسی شخص کو اجرت کے عوض کوئی کام دیا جائے تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر وہ کام اس نوعیت کا ہو کہ کوئی بھی شخص اس کام کو کر سکتا ہو اور اجرت پر رکھنے والے نے اجازت بھی دی ہو تو وہ کام کسی دوسرے سے کروانا جائز ہو گا اور اگر وہ کام اس نوعیت کا ہو کہ ہر آدمی اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور اجرت پر رکھنے والے نے اس کی اجازت بھی نہ دی ہو تو ایسی صورت میں کسی دوسرے شخص سے وہ کام کروانا جائز نہ ہو گا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جب انتظامیہ نے ایک خاص تنخواہ کے عوض خاص شخص کو بطورِ چپڑاسی رکھا ہوا ہے تو انتظامیہ اس خاص چپڑاسی ہی کی صلاحیت پر راضی ہے، کسی دوسرے شخص کی صلاحیت پر راضی نہ ہو گی، اس لیے اس چپڑاسی کا اپنی جگہ کسی دوسرے شخص کو چپڑاسی کے کام کے لیے بھیج کر تھوڑی سی تنخواہ دے کے اور باقی تمام تنخواہ خود وصول کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (18/6)
"(وإذا شرط عمله بنفسه) بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك (لا يستعمل غيره إلا الظئر فلها استعمال غيرها) بشرط وغيره خلاصة (وإن أطلق كان له) أي للأجير أن يستأجر غيره".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی