سوال:
مفتی صاحب! امید ہے اپ لوگ خیریت سے ہوں گے۔ سوال عرض ہے کہ میں ٹیکسٹائل کمپنی میں کام کرتا ہوں اور اس کمپنی نے اپنی اسپننگ یعنی دھاگہ بنانے کی مشینیں لگائی ہیں۔ پہلے ہم دھاگہ مارکیٹ سے خریدتے تھے اور اب خود بناتے ہیں، ہمارے پاس دو طرح کی مشینیں ہیں، ایک اوپن اینڈ اور دوسری ایئر جیٹ۔ ہمارے جو کسٹمرز ہیں وہ لکھ کر دیتے ہیں کہ ان کو کون سا دھاگہ چاہیے، اپنی پروڈکٹ میں عمومی طور پر زیادہ تر لوگ رنگ اسپننگ کا دھاگہ استعمال کرنے کا کہتے ہیں جس کی مشین ہمارے پاس نہیں ہے، اب ہمارے مالکان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم اپنے گھر کی اسپننگ پہ دھاگہ بنائیں حالانکہ اگر ہم رنگ اسپننگ کی جگہ اوپن اینڈ اسپننگ پر دھاگہ بناتے ہیں تو وہ دھاگہ سستا ہوتا ہے اور کوالٹی میں کمزور ہوتا ہے۔ کچھ کسٹمرز جب لیب رپورٹ مانگتے ہیں تو ہمیں اس میں رد و بدل کرنی پڑتی ہے تاکہ کسٹمر کو پتہ نہ چلے کہ ہم نے کون سا دھاگہ استعمال کیا ہے اور کچھ کسٹمرز ایسے ہیں جو دھاگے کی وضاحت اپنے آرڈرز میں نہیں کرتے تو ان کے لیے تو ہم چاہے اوپن اینڈ یا ایئر جیٹ کوئی سا بھی دھاگہ استعمال کر لیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جو کسٹمرز خاص طور پر یہ لکھتے ہیں کہ ان کو رنگ سپننگ کا دھاگہ چاہیے مگر ہم ان کو اوپن اینڈ یا ایر جیٹ اسپننگ کا دھاگہ لگا کر دیتے ہیں تو کیا یہ عمل ہمارے لیے مناسب ہے اور اس کے گنہگار مالکان ہوں گے یا جو لوگ ملازمت کر رہے ہیں وہ بھی ہوں گے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں آرڈر کرتے وقت گاہک کے ساتھ جو شرائط طے ہوئی ہوں، ان کی پاسداری شرعاً بھی لازم ہے، بعد میں ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر معیاری اور سستا دھاگہ استعمال کرنا اور لیب رپورٹ میں رد و بدل کرکے غلط رپورٹ تیار کرکے دینا معاہدہ کی خلاف ورزی، جھوٹ، خیانت اور دھوکہ دہی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔
نیز جو ملازمین اس بات کو جاننے کے باوجود براہ راست ایسا کام کرتے ہوں تو ان کا عمل بھی "تعاون علی الاثم" (گناہ کے کام میں معاونت) پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدة، الایة: 2)
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ o
صحیح مسلم: (کتاب الایمان، رقم الحدیث: 248)
عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، مر على صبرة طعام فادخل يده فيها، فنالت اصابعه بللا، فقال: " ما هذا يا صاحب الطعام؟ "، قال: اصابته السماء يا رسول الله، قال: " افلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس، من غش، فليس مني"
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1972، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن ابن عمر رضي اللّٰه عنهما أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: إذا کذب العبد تباعد عنع الملَك میلاً من نتن ما جاء به
المنهاج شرح صحيح مسلم: (69/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
وَأَمَّا الْكَذِبُ فَهُوَ عِنْدَ الْمُتَكَلِّمِينَ مِنْ أَصْحَابِنَا الْإِخْبَارُ عَنِ الشَّيْءِ عَلَى خِلَافِ مَا هُوَ عَمْدًا كَانَ أَوْ سَهْوًا هَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ
الدر المختار مع رد المحتار: (باب خيار العيب، 47/5، ط: دار الفكر)
لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام (قوله؛ لأن الغش حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص، کراچی