سوال:
انسان کے مرنے کے بعد قیامت کے دن اٹھائے جانے سے لے کر جنت دوزخ کے مکمل فیصلہ ہونے تک کے معاملات کی ترتیب کیا ہوگی؟ مثلاً: حشر، میزان، پل صراط، حوض کوثر، جنت اور دوزخ ان سب مراحل کی ترتیب کیسے ہوگی؟ کب کون سا مرحلہ پہلے اور بعد میں ہوگا؟ ان مراحل میں انسان کوکیا کیا معاملات در پیش گوں گے؟ قرآن و حدیث کے حوالوں سے رہنمائی فرمادیں۔
جواب: قیامت کی ابتدا سے جنت یا جہنم میں داخل ہونے تک کے مختلف مراحل قرآن و سنت میں ذکر کیے گیے ہیں، جنہیں ذیل میں مرحلہ وار ترتیب سے ذکر کیا جاتا ہے:
1) صور پھونکنا: صُور ایک سینگ ہے، جس میں سب سے پہلے ایک مرتبہ پھونکا جائے گا جس کی آواز سن کر تمام زندہ لوگ مرجائیں گے، اسے "نفحہ اولی" کہتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا صُور پھونکا جائے گا جس سے تمام مردہ لوگ زندہ ہو جائیں گے اور قبروں سے اٹھ کر میدان محشر کی طرف چلیں گے۔
2) میدانِ حشر: میدان حشر میں تمام انسان و جنّات جمع ہوں گے اور ہر شخص نفسَا نفسِی کے عالم میں ہوگا، چنانچہ آپ ﷺ کی سفارش پر حساب و کتاب کا عمل شروع کیا جائے گا، اس سفارش کو "شفاعتِ کُبریٰ" کہا جاتا ہے۔
3) نامہ اعمال: حساب و کتاب کے لیے ہر شخص کو اس کا نامہ اعمال پکڑایا جائے گا، جس میں لکھے گیے ہر اچھے اور برے عمل کا انسان اعتراف کرے گا۔
4) وزنِ اعمال: بروز قیامت ترازو قائم کیا جائے گا تاکہ انسانوں کے اعمال کو تولا جائے، کیونکہ بنی آدم کے اعمال گنے نہیں جائیں گے، بلکہ تولے جائیں گے، چنانچہ ترازو کے ایک پلّے میں نیکیاں اور دوسرے پلّے میں گناہ رکھے جائیں گے۔ اگر نیکیوں کا پلّہ بھاری ہوا تو وہ شخص کامیاب شمار ہوگا اور اگر برائیوں کا پلّہ بھاری ہوا تو وہ شخص ناکام اور نامراد ہوگا۔
5) حوضِ کوثر: حوض کوثر پر حاضر ہونے والے کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے پانی پلائیں گے، چنانچہ اس پانی کو پینے کے بعد وہ شخص جنت میں داخل ہونے تک پیاس محسوس نہیں کرے گا۔
6) پُل صراط : اس پُل کو جہنم کے اوپر بچھایا جائے گا، نیک اور بد ہر شخص کو اس پُل پر سے گزرنا لازمی ہے، یہ پُل بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے، نیک لوگ اپنے اچھے اعمال کی کمی اور زیادتی کے اعتبار سے اس قدر تیزی کے ساتھ گزریں گے اور برے لوگ اس سے گزر نہ پائیں گے اور جہنم ان کا ٹھکانہ ہوگا۔
7) جنت اور جہنم: اہل ایمان جنت میں جائیں گے اور اہل کفر اور وہ اہل ایمان جن کے گناہوں کا پلّہ بھاری ہو وہ جہنم میں جائیں گے۔
8) شفاعت صغریٰ: وہ اہل ایمان جو اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں گئے ہوں گے، ان کے حق میں انبیاء، صلحاء، شھداء، صدیقین اور حفاظ وغیرہ حضرات کی شفاعت قبول کی جائے گی، اس سفارش کو "شفاعتِ صُغریٰ" کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (سورۃ الزمر، الآیة: 68)
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُؕ-ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ(الزمر: 68)
القرآن الکریم: (سورۃ الحاقة، الآیة: 19،20)
فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖۙ-فَیَقُوْلُ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَهْ(19)اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَهْ(20)
القرآن الکریم: (سورۃ الانبیاء، الآیة: 47)
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْٴًاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(47)
القرآن الکریم: (سورۃ مریم، الآیة: 71)
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا(71)
القرآن الکریم: (سورۃ الکوثر، الآیة: 1)
اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ(1)
القرآن الکریم: (سورۃ نبی اسرائیل، الآیة: 79)
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ﳓ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(79)
الاعتقاد لابن أبي يعلى: (ص: 34، ط: دار أطلس الخضراء)
(الشفاعة) : فأما المسيئون الموحدون فإنهم يخرجون منها بالشفاعة. وقال النبي صلى الله عليه وسلم: "شفاعتي لأهل الكبائر من أمتي" وأطفال المشركين في النار.
فتاوی قاسمیہ: (32/2 )
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی