resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "سب سے پہلے فتنہ احلاس ہوگا"، حدیث کی اسنادی حیثیت اور فتنہ دھیماء کی مراد (23756-No)

سوال: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ نے فتنوں کا تذکرہ شروع کیا اور اس کا کافی زیادہ ذکر فرمایا، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: "سب سے پہلے ‘فتنۂ الأحلاس’ آئے گا۔ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فتنۂ الأحلاس کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ بھاگ دوڑ اور خانہ جنگی کا فتنہ ہوگا، پھر ایک دوسرا فتنہ آئے گا جو لوگوں پر خوشحالی اور آسائش کے پردے میں آئے گا، اس میں ایک شخص اُبھرے گا جو دعویٰ کرے گا کہ وہ میرے اہلِ بیت سے ہے، حالانکہ وہ حقیقت میں مجھ سے نہیں ہو گا۔ یاد رکھو! میرا دوست اور ساتھی تو صرف وہی ہے جو تقویٰ والا ہے، پھر لوگ کسی ایسے شخص پر متفق ہو جائیں گے جو ایسا ہو گا جیسے ران کو پسلی پر رکھ دیا جائے یعنی نہ پائیدار، نہ مضبوط"۔
پھر ایک اور فتنہ آئے گا جو “فتنۂ دُهیماء” کہلائے گا، ایک ایسا سیاہ و تاریک فتنہ جو اس امت کے ہر فرد کو جھنجھوڑے گا، اس کی شدت اتنی ہو گی کہ جب لوگ کہیں گے اب ختم ہو گیا، وہ مزید شدت اختیار کر لے گا، اس دور میں انسان صبح کو مومن ہو گا اور شام کو کافر، یا شام کو مومن اور صبح کو کافر بن جائے گا، یہاں تک کہ لوگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے: ایک گروہ مکمل ایمان والوں کا ہو گا جن میں نفاق بالکل نہ ہو گا، اور دوسرا گروہ سراسر نفاق والوں کا ہو گا جن میں ایمان نام کی کوئی چیز نہ ہوگی۔ جب تم یہ صورتحال دیکھو تو سمجھ لو کہ دجال کا ظہور قریب ہے، وہ آج بھی ہو سکتا ہے اور کل بھی"۔
مفتی صاحب! مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت بیان کردیں، اس کے علاوہ "فتنہ دھیماء" سے کیا مراد ہے؟ اس کی وضاحت فرمادیں۔

جواب: مذکورہ روایت کو امام احمد بن حنبل نے اپنی "مسند "، امام ابو داؤد رحمہما اللہ نے اپنی "سنن"، امام طبرانی نے اپنی "مسند"، اور حاکم نے "مستدرک" میں مندرجہ ذیل متن وسند سے نقل کیا ہے:
أبو المغيرة، حدثنا عبد الله بن سالم، حدثني العلاء بن عتبة الحمصي أو اليحصبي، عن عمير بن هانئ العنسي، سمعت عبد الله بن عمر يقول: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم قعودا، فذكر الفتن، فأكثر في ذكرها حتى ذكر فتنة الأحلاس، فقال قائل: يا رسول الله، وما فتنة الأحلاس؟ قال: " هي فتنة هرب وحرب، ثم فتنة السراء، دخلها أو دخنها من تحت قدمي رجل من أهل بيتي، يزعم أنه مني، وليس مني، إنما وليي المتقون، ثم يصطلح الناس على رجل كورك على ضلع، ثم فتنة الدهيماء لا تدع أحدا من هذه الأمة إلا لطمته لطمة، فإذا قيل: انقطعت تمادت، يصبح الرجل فيها مؤمنا ويمسي كافرا، حتى يصير الناس إلى فسطاطين، فسطاط إيمان لا نفاق فيه، وفسطاط نفاق لا إيمان فيه، إذا كان ذاكم فانتظروا الدجال من اليوم أو غد " ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل، لأبي عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (المتوفى: 241هـ)، 309:2، رقم الحدیث:6168، المحقق شعیب الأرنؤط، عادل مرشد، وآخرون،ط: دار الرسالة)
(سنن أبي داود، لأبي داود سليمان بن الأشعث الأزدي السِّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)، 94:4، رقم الحدیث: 4242، المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد، الناشر: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت)
(مسند الشامیین، لأبي القاسم سليمان بن أحمد الطبراني (المتوفى: 360هـ)، 401:3، رقم الحدیث:2551، المحقق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت)
(المستدرک علی الصحیحین، أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405هـ)، 513:4، رقم الحدیث:8441، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)
روایت کی اسنادی حیثیت:
مذکورہ روایت میں موجود تمام راوی اپنی عدالت ثقاہت کے لحاظ سے قابل اعتماد ہیں، البتہ علاء بن عتبہ کو بعض محدثین نے "صالح الحدیث" اور" صویلح الحدیث" کے کمزور الفاظ تعدیل سے ذکر کیا ہے، البتہ ابو الحسن عجلی اور یحیی بن معین رحمہما اللہ نے اس کی توثیق کی ہے، اس کے علاوہ ابن حبان اور ابن شاہین رحمہما اللہ نے اپنی کتاب "الثقات" میں اس راوی کا تذکرہ کیا ہے، لہذا یہ روایت سند کے لحاظ سے مرتبہ صحت پر ہے، چنانچہ محدثین عظام اس جیسی روایت کو اپنی کتب میں فتن و ملاحم کے عنوان کے تحت ذکر کرتے ہیں۔
فتنہ دھیماء کی مراد:
"دھیماء" لغت کے لحاظ سے انتہائی تاریکی کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے، یہ اصطلاح عام طور پر اس صورتِ حال کے لیے استعمال کی جاتی ہے جب فتنے کا آغاز نہایت خاموشی اور غیر محسوس طریقے پر ہو، لیکن رفتہ رفتہ وہ بہت خطرناک فتنہ کی صورت اختیار کرجائے۔ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ "دھیماء" ایک اونٹنی کا نام تھا، جس پر آگے پیچھے سات آدمیوں نے جنگ کی تو سب مارے گئے اور اونٹنی خالی رہ گئی۔ جب سے ہر خطرناک فتنہ کو بطورِ کہاوت اس جملہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس کے مصداق سے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے چھٹی صدی ہجری میں بغداد پر تاتاریوں کے حملہ اور عام خونریزی کا فتنہ مراد ہے، جنہوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور یہ انتہائی سخت فتنہ تھا، جس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔
جبکہ حضرت سہارنپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ فتنہ امام مہدی کے ظہور سے کچھ پہلے پایا جائے گا اور حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام کے نزول تک چلتا رہے گا اور حدیث کے آخری لفظ سے بھی اس کی طرف اشارہ مل رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الحاکم في "المستدرک علی الصحیحین للنیسابوري: (رقم الحدیث: 8441، 513/4، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت)
"هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه» وعلق علیه الذهبي بأنه صحیح
(المستدرک علی الصحیحین، أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405ه)، 513:4، رقم الحدیث:8441، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت)

حلیة الأولیاء لأبي نعیم الاصبھاني: (158/5، الناشر: السعادة، بجوار محافظة مصر)
"غريب من حديث عمير والعلاء، لم نكتبه مرفوعا إلا من حديث عبد الله بن سالم".
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني (المتوفى: 430ه)، 158:5، الناشر: السعادة - بجوار محافظة مصر)

الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: (358/6، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
"العلاء بن عتبة اليحصبى الحمصى: سمع عمير بن هانئ وخالد بن معدان وثور بن يزيد ومعاوية بن صالح۔ روى عنه عبد الله بن سالم والحارث ابن عبيدة واسمعيل بن عياش، سمعت أبي يقول ذلك، وسألته عنه، فقال: هو شيخ صالح الحديث".
(الجرح والتعديل، لأبي محمد عبد الرحمن الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327ه)، 358:6، دار إحياء التراث العربي – بيروت)

تاریخ الاسلام للذھبي: (465/3، المحقق: الدكتور بشار عوّاد معروف، الناشر: دار الغرب الإسلامي)
العلاء بن عتبة الحمصي: "صویلح الحدیث"۔
(تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، لشمس الدین الذهبي، 465:3، المحقق: الدكتور بشار عوّاد معروف، الناشر: دار الغرب الإسلامي)

حجة الله البالغة للشاه ولي الله الدهلوي: (330/2، المحقق: السيد سابق، الناشر: دار الجيل، بيروت، لبنان)
"و الفتنة الدهيماء تغلب الجنكيزية على المسلمين ونهبهم بلاد الإسلام ..."
(حجة الله البالغة، لأحمد بن عبد الرحيم، المعروف ب «الشاه ولي الله الدهلوي»، (330/2، المحقق: السيد سابق، الناشر: دار الجيل، بيروت، لبنان)

بذل المجهود: (272/12، دار البشائر الإسلامیة)
"(فإذا كان ذاكم فانتظروا الدجال) أي ظهوره (من يومه أو من غَدِه)و وهذا يؤيد أن المراد بالفسطاطين: المدينتان؛ فإن المهدي يكون في بيت المقدس، فيحاصره الدجال، فينزل عيسى -عليه الصلاة والسلام-، فيذوب الملعون، كالملح ينماع في الماء، فيطعنه بحربة له فيقتله، فيحصل الفرج العام، والفرح التام۔ وهذه الفتنة بعد، وستكون قبيل ظهور المهدي، ويمتد إلى نزول عيسى بن مريم -عليه الصلاة والسلام-"
(بذل المجهود في حل سنن أبي داود، للشیخ خلیل أحمد السهارنفوري، 272:12، دار البشائر الإسلامیة)

والله تعالی أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees