سوال:
میں ایک کمپنی کے ساتھ آن لائن کام کر رہی ہوں، میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں اس کمپنی کے لیے لوگوں کی بھرتی کرتی ہوں اور مینجمنٹ سے متعلق امور دیکھتی ہوں۔ میں کمپنی کے ملازمین کے مسائل کو دیکھتی ہوں، ان کی تنخواہوں کے عمل میں شامل ہوں اور تنخواہوں کے حساب کتاب کا کام بھی دیکھتی ہوں۔ یہ کمپنی مختلف کلائنٹس کے ساتھ کام کرتی ہے، جن میں سےایک اسرائیلی برانڈ ہے، یہ کمپنی کے لیے کاؤنٹنگ، بزنس اور دیگر معاملات سنبھالتی ہے۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ موجودہ حالات کے پیش نظر جب ہمیں اسرائیلی برانڈز کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تو کیا مجھے یہ نوکری جاری رکھنی چاہیے یا پھر چھوڑ دینی چاہیے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کا بنیادی کام جائز ہے لیکن کبھی کبھار ایسی کمپنیوں کا کام آجاتا ہے، جو اپنی آمدنی کا مخصوص حصہ اسلام کے خلاف یا مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں خرچ کرتی ہے تو آپ کو اپنی کمپنی سے صرف ایسے کسٹمر کا کام کرنے سے معذرت کرنی چاہیے تاکہ ایسے کسٹمر کی کسی بھی درجے میں معاونت کرنے والوں میں آپ کا شمار نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدۃ، الآیة: 2)
وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان۔۔۔۔الخ
التفسیر المظہری: (19/3)
"وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ يعنى لا تعاونوا على ارتكاب المنهيات ولا على الظلم لتشفى صدوركم بالانتقام
فقه البیوع: (187/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
و منع بعض الفقھاء البیع ان قصد به احد المتعاقدین المعصیة و علم الآخر ذلك.
فقه البیوع: (1056/2، ط: مکتبة معارف القرآن)
أما قبول الوظائف في مثل هذه الفنادق والمطاعم، فإن كانت الوظيفة متمحضة لخدمة مباحة، فهي جائزة، وتجرى على راتبها حكم المال الحلال وإن كانت متمحضة للحرام، مثل بيع الخمر، فهي حرام، وراتبها حرام. وأما الوظائف المركبة من الخدمات المباحة والخدمات المحظورة، فلا يجوز قبولها لاشتمالها على عمل محرم، ولكن إن قبل أحد مثل هذه الوظيفة، فما حكم الراتب الذى اخذہ علیھا؟ لم اجد فيها نقلاً في كلام الفقهاء ۔۔۔۔ والحاصل ان الإجارة فى الخدمة المباحة إنما تصح إذا كانت أجرتها معلومة بانفرادها، ولا تصح فيما إذا لم تكن أجرتها معلومة. فإن كان كذلك في خدمات الفنادق والمطاعم والبنوك وشركات التأمين صارت أجرة الموظف فيها مركبة من الحلال والحرام فدخلت فى الصورة الثالثة من القسم الثالث، وحلّ التعامل معہ بقدر الحلال. أما إذا لم تعرف أجرة الخدمة المباحة على حدتها، فالإجارة فاسدة ولكن الأجير يستحق أجر المثل في الإجارات الفاسدة، كما صرح به ابن قدامة رحمه الله تعالى بذلك في إجارات فاسدة أخرى. وعلى هذا، فإن ما يُقابل أجر المثل للخدمة المباحة في راتبه ينبغى أن يكون حلالاً، فصار راتبه مخلوطاً من الحلال والحرام في هذه الصورة أيضاً. فينبغى أن يجوز معه التعامل بقدر الحلال.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی