resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: امت محمدیہ ﷺ قیامت کے دن انبیائے کرام علیہم السلام کے گواہ کے طور پر پیش کی جائے گی (23763-No)

سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ، مفتی صاحب! یہ ایک مسئلہ ہے کہ آخرت میں پہلی امتوں کے کفار کہیں گے کہ یا اللہ ہمیں تو کسی نے دعوت نہیں دی، ہمیں اسلام کی دعوت دیتے تو ہم کلمہ پڑھ لیتے تو ان کے جو نبی ہوں گے وہ کہیں گے یا اللہ ہم نے تو ان کو دعوت دی ہے یہ جھوٹ بولتے ہیں تو وہ کہیں گے کہ نہیں انہوں نے ہمیں دعوت نہیں دی، پھر ان انبیاء علیہم السلام سے اللہ پاک فرمائیں گے کہ آپ گواہ پیش کرو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت یہ آگے کھڑی ہو جائے گی اور کہے گی کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ان کفار کو ان کے نبیوں نے دعوت دی ہے لیکن انہوں نے قبول نہیں کی ہے تو یہ کفار کہیں گے کہ یہ تو اس وقت تھے ہی نہیں یہ تو بعد میں آئے ہیں ان کو کیا پتہ کہ ہمیں دعوت دی ہے یا نہیں دی ہے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی یہ کہیں گے کہ یا اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ پہلی امتوں کو ان کے نبیوں نے دعوت دی ہے انہوں نے قبول نہیں کی، ان کو یہی عذاب ہوں گے، آپ کے نبی نے ہمیں یہ بتایا ہے، ہم اس لیے ابھی بھی گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے نبی نے سچ کہا ہے ان کو نبیوں نے دعوت دی ہے لیکن انہوں نے قبول نہیں کی، تو اس بات پر اللہ پاک ان کی گواہی قبول کریں گے اور ان کفار کو جہنم میں ڈال دیں گے۔
مفتی صاحب! یہ واقعہ کون سے کون سی کتابوں میں ہے؟ نیز یہ بات ٹھیک ہے یا ٹھیک نہیں ہے؟ مدلل رہنمائی فرمادیں۔

جواب: سوال میں ذکر کردہ واقعہ صحیح بخاری، ترمذی، سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں مختصر اور تفصیل کے ساتھ مذکور ہے، اس واقعہ میں امت محمدیہ کی یہ خصوصیت بیان فرمائی گئی ہے کہ اس امت محمدیہ کو سب سے زیادہ معتدل اور متوازن امت بنایا گیا ہے جس کے نتیجہ میں ان کو میدانِ حشر میں یہ امتیاز حاصل ہوگا کہ ان کو قیامت کے دن انبیائے کرام علیہم السلام کے گواہ کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ ذیل میں صحیح بخاری کی روایت کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے:
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:“ قیامت کے دن نوح علیہ السلام کو بلایا جائے گا۔ وہ عرض کریں گے کہ اے رب! میں حاضر ہوں۔ اللہ رب العزت فرمائے گا، کیا تم نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے کہ میں نے پہنچا دیا تھا، پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا، کیا انہوں نے تمہیں میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ لوگ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ (نوح علیہ السلام سے) فرمائے گا کہ آپ کے حق میں کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے؟ وہ کہیں گے کہ محمد ( ﷺ ) اور ان کی امت میری گواہ ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کی امت ان کے حق میں گواہی دے گی کہ انہوں نے پیغام پہنچا دیا تھا اور رسول (یعنی آپ ﷺ ) اپنی امت کے حق میں گواہی دیں گے (کہ انہوں نے سچی گواہی دی ہے) یہی مراد ہے اللہ کے اس ارشاد سے «وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا‏» کہ ”اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں کے لیے گواہی دو اور رسول تمہارے لیے گواہی دیں ”۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر:4487)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (کتاب تفسیر القرآن، بَابُ قَوْلِهِ: (وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا) رقم الحدیث: 4487، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يدعى نوح يوم القيامة، فيقول: لبيك وسعديك يا رب، فيقول: هل بلغت؟ فيقول: نعم، فيقال لأمته: هل بلغكم؟ فيقولون: ما أتانا من نذير، فيقول: من يشهد لك؟ فيقول: محمد وأمته، فتشهدون أنه قد بلغ، {ويكون الرسول عليكم شهيدا} فذلك قوله جل ذكره: {وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا} والوسط العدل».

سنن الترمذي: (كتاب تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب وَمِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، رقم الحدیث: 2961، ط: دار الغرب الاسلامی)
حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا جعفر بن عون، اخبرنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يدعى نوح فيقال: هل بلغت؟ فيقول: نعم، فيدعى قومه، فيقال: هل بلغكم؟ فيقولون: ما اتانا من نذير، وما اتانا من احد، فيقال: من شهودك؟ فيقول: محمد وامته، قال: فيؤتى بكم تشهدون انه قد بلغ، فذلك قول الله تعالى: وكذلك جعلناكم امة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا سورة البقرة آية 143 والوسط العدل "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.

سنن ابن ماجة: (کتاب الزھد، بَابُ: صِفَةِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رقم الحدیث: 4284، ط: دار الجیل)
حدثنا ابو كريب , واحمد بن سنان , قالا: حدثنا ابو معاوية , عن الاعمش , عن ابي صالح , عن ابي سعيد , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يجيء النبي يوم القيامة ومعه الرجل , يجيء النبي ومعه الرجلان , ويجيء النبي ومعه الثلاثة , واكثر من ذلك واقل , فيقال له: هل بلغت قومك؟ فيقول: نعم فيدعى قومه , فيقال: هل بلغكم؟ فيقولون: لا , فيقال: من يشهد لك؟ فيقول: محمد وامته , فتدعى امة محمد , فيقال: هل بلغ هذا؟ فيقولون: نعم , فيقول: وما علمكم بذلك؟ فيقولون: اخبرنا نبينا بذلك , ان الرسل قد بلغوا فصدقناه , قال: فذلكم قوله تعالى: وكذلك جعلناكم امة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا سورة البقرة آية 143.

مسند احمد: (مسند ابی سعید الخدري، رقم الحدیث: 11579، ط: عالم الکتب)
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي سعيد الخدري ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يجيء النبي يوم القيامة ومعه الرجل ، والنبي ومعه الرجلان ، واكثر من ذلك ، فيدعى قومه ، فيقال لهم : هل بلغكم هذا ؟ فيقولون : لا , فيقال له : هل بلغت قومك ؟ فيقول : نعم , فيقال له : من يشهد لك ؟ فيقول : محمد وامته , فيدعى محمد وامته ، فيقال لهم : هل بلغ هذا قومه ؟ فيقولون : نعم , فيقال : وما علمكم ؟ فيقولون : جاءنا نبينا ، فاخبرنا ان الرسل قد بلغوا ، فذلك قوله : وكذلك جعلناكم امة وسطا سورة البقرة آية 143 ، قال : يقول : عدلا ، لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا سورة البقرة آية 143 .

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees