سوال:
مفتی صاحب! میاں بیوی میں جھگڑے کئی دنوں سے چل رہے تھے، میاں نے بیوی کی پٹائی کی تو لڑکی نے اس کی شکایت اپنے والد سے کی
تو والد نے لڑکی کو اپنے گھر بلوا لیا، جب لڑکی گھر آ گئی تو شوہر نے وائس میسج کے ذریعے واٹس ایپ پر مذکورہ الفاظ کہے"اور ایک بات اسلام کی شریعت ماننے کے ناطے آج اسلامی طریقے سے تیرے کو طلاق دے رہا ہوں طلاق، طلاق، طلاق، ٹھیک ہے، سن لیا، بس کہانی ختم"
یہ وائس ریکارڈ موبائل میں محفوظ ہے ہوبہو وہی الفاظ نقل کیے گئے ہیں جو شوہر نے وائس میسج میں استعمال کیے ہیں۔
آپ مفتیان کرام سے سے یہ پوچھنا ہے کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اور اگر ہوئی تو کتنی ہوئی؟ دونوں پھر ساتھ رہنا چاہیں تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ تشفی بخش جواب دے کر ممنون و مشکور ہوں۔ اللہ تعالی آپ حضرات کی کاوشوں کو قبول فرمائے، اپنے مقبول بندوں میں شامل فرمائے، اور سب کچھ عطا فرمائے۔ آمین
جواب: سوال میں ذکر کردہ تفصیل اگر درست ہے اور آپ کے شوہر نے واقعتاً آپ کو وائس میسج کے ذریعے یہ الفاظ "ایک بات اسلام کی شریعت ماننے کے ناطے آج اسلامی طریقے سے تیرے کو طلاق دے رہا ہوں، طلاق، طلاق، طلاق، ٹھیک ہے، سن لیا، بس کہانی ختم" کہے ہیں تو ان الفاظ کے ذریعے تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور میاں بیوی کے درمیان حرمتِ مغلّظہ ثابت ہوگئی ہے، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
ہاں! اگر عورت عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرے اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرے، پھر وہ اسے اپنی مرضی سے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہوجائے تو ایسی صورت میں وہ عورت عدت گزار کر دوبارہ سابقہ شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔
نیز واضح رہے کہ شریعت کی نظر میں ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں اور اس کے بعد بیوی اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے، یہی حکم قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے ثابت ہے اور اسی پر جمہور صحابہ و تابعین (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کا اجماع ہے اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالی کا بالاتفاق یہی مسلک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیه: 230)
فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰی تَنۡکِحَ زَوۡجًا غَیۡرَہٗ ؕ فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنۡ ظَنَّاۤ اَنۡ یُّقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَo
صحیح البخاری: (2014/5، ط: دار ابن کثیر)
عن عائشة: أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: (لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول).
مرقاة المفاتيح: (2149/5 ط: دار الفكر)
وفي شرح السنة: العمل على هذا عند عامة أهل العلم من الصحابة وغيرهم، وقالوا: إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا فلا تحل له بعد ذلك حتى تنكح زوجا غيره، ويصيبها الزوج الثاني، فإن فارقها أو مات عنها قبل إصابتها فلا تحل ولا تحل إصابة شبهة ولا زنا ولا ملك يمين
الدر المختار: (232/3)
( والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين ) في طهر واحد ( لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه ، أو ) واحدة في ( حيض موطوءة ).. الخ
الھندیة: (390/1، ط: دار الکتب العلمیة)
وإذا قال لامرأته أنت طالق وطالق و طلاق ولم يعلقه بالشرط إن كانت مدخولة طلقت ثلاثا وإن كانت غير مدخولة طلقت واحدة وكذا إذا قال أنت طالق فطالق فطالق أو ثم طالق ثم طالق أو طالق طالق كذا في السراج الوهاج.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی