سوال:
میں ایک لڑکی سے محبت کرتا ہوں، اس لڑکی سے میں کئی دفعہ ملا بھی ہوں لیکن میں نے بعد میں اللہ سے توبہ بھی کرلی اور اس لڑکی نے بھی توبہ کرلی کہ ہم اب ایک دوسرے سے کبھی بھی نہیں ملیں گے کیونکہ نکاح سے پہلے ہمارا ایک دوسرے سے ملنا حرام ہے، کہیں ہم سے غلطی نہ ہوجائے۔ اس لیے ہم نے ایک دوسرے سے نہ ملنے کا پکا عزم کیا ہے اور پہلے جو ملا تھا اس کی وجہ سے اللہ سے سچی توبہ بھی کی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ میرے (یعنی لڑکے کے) گھر والے نہ تو اس لڑکی کو پسند کرتے ہیں اور نہ اس کے گھر والوں کو لیکن ہم ایک دوسرے سے بے حد پیار کرتے ہیں اور ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر قسم کھائی ہے کہ ہم شادی کریں گے تو ایک دوسرے ساتھ کریں گے ورنہ ہم ایسے ہیں رہیں گے یعنی کسی اور سے بھی شادی نہیں کریں گے۔ وہ لڑکی نمازی ہے اور اس کے گھر والے بھی اچھے ہیں، میں اس کے گھر والوں کو جانتا ہوں ان کو ہمارے علاقے میں آئے ہوئے تقریباً 10 سال ہوگئے ہیں، انہوں نے نہ کسی سے لڑائی کی اور نہ کسی سے گالم گلوچ، ہاں البتہ اس کا ایک بھائی غلط عادت میں پڑ گیا تھا غلط لوگوں کی صحبت کی وجہ سے اس نے نشہ آور چیزیں یعنی چرس فروخت کرنا شروع کردی تھی، لیکن اس کے گھر والے اس کی آمدنی نہیں لیتے تھے، کیوں کہ یہ آمدنی حرام ہے، لیکن اب اس کا بھائی ٹھیک ہوگیا ہے اور وہ اس طرح کی کوئی غلط نشہ آور چیز فروخت نہیں کرتا بلکہ وہ خود مچھلی کی شکار کرنے سمندر جاتا ہے، لیکن میرے (یعنی لڑکے کے) گھر والے میری ماں میری بہن اور میرے بھائیوں نے کہاں کہ ہم اس لڑکی سے تمہارا نکاح نہیں کرائیں گے، ہم اپنی پسند کی لڑکی سے ہمارا نکاح کرائیں گے اور ساتھ میں میری ماں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تم نے اس لڑکی سے نکاح کیا تو میں تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کروں گا، آخرت میں بھی معاف نہیں کروں گی اور میری بہنوں نے کہا ہے کہ اگر تم نے اس لڑکی سے شادی کی تو تم میرا مرا ہوا چہرہ بھی نہیں دیکھنا۔
اب اس صورت میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ کیا ہم ایک دوسرے سے شادی کر لیں یا پھر نہ کریں؟ اہم نے ایک دوسرے کے ساتھ ملکر قسم کھائی ہے کہ ہم شادی کریں گے تو ایک دوسرے کے ساتھ ورنہ کسی کے ساتھ نہیں اور یہ سب معاملہ لڑکی کے گھر والوں کو بھی پتہ ہے کہ ہمارے گھر والوں نے منع کیا ہے تو لڑکی نے مجھے کال کی اور کہا کہ میں آپ کا ہمیشہ انتظار کروں گی، کسی اور سے شادی نہیں کروں گی۔ لیکن جس دن آپ نے کسی اور سے نکاح کرلیا تو وہ دن میری زندگی کا آخری دن ہوگا اور میری خود کی یہی خواہش ہے کہ میرا نکاح اسی لڑکی ہو لیکن میرے گھر والے مان نہیں رہے ہیں۔
براہ کرم مجھے مذکورہ مسئلہ کی پوری وضاحت کردیں اور پوری تفصیل سے بیان کردیں کہ میں کیا کروں؟ کیا میرے لیے ماں کا حکم توڑ کر اس لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے؟ اس صورت میں جبکہ ماں نے کہا ہے کہ اگر تم نے اس لڑکی سے شادی کی تو میں تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کروں گی اور اگر میں نے اس لڑکی سے شادی کی تو میرے گھر والے مجھے گھر سے نکال بھی دیں گے تو کیا اس صورت میں میرے گھر والوں کا مجھے گھر سے نکال دینا جائز ہے؟ براہ کرم شریعت کے رو سے مکمل تفصیل کے ساتھ مسئلہ کی وضاحت فرمادیں۔
اور جو ماں نے یہ کہا کہ اگر تم نے اس لڑکی سے شادی کی تو میں تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کروں گی، شریعت کی رو سے اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا ماں کا اپنے بیٹے کو اس طرح کہنا درست ہے جبکہ بیٹا اس لڑکی کو بہت چاہتا ہے اور اس لڑکی سے شادی بھی کرنا چاہتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر عاقل بالغ مرد اور عورت آپس کی رضامندی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر لیں تو ایسا نکاح منعقد ہو جاتا ہے، لیکن اگر ولی کی اجازت کے بغیر لڑکی خود اپنا نکاح غیر کفو میں کرلے تو ولی ایسے نکاح کو عدالت سے فسخ کروانے کا اختیار رکھتا ہے، بشرطیکہ ولی اولاد ہونے سے پہلے اپنے اس حق کو استعمال کرلے، ورنہ اس کا یہ حق ختم ہو جائے گا۔
تاہم والدین کی رضامندی سے جو رشتہ ہوتا ہے، وہ خیر و برکت کا ذریعہ بنتا ہے، کیونکہ عموماً پسند کی شادی وقتی جذبات کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے جو بعد میں بسا اوقات دیرپا نہیں ہوتی۔ اس لیے شادی کے معاملے میں لڑکے اور لڑکی کو چاہیے کہ اپنے والدین کی رائے کو اہمیت دیں۔ نیز والدین کو بھی چاہیے کہ اگر لڑکا / لڑکی دین دار ہو اور جوڑ کا رشتہ ہو اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو تو بلا وجہ شادی کے معاملے میں رکاوٹ ڈالنا درست نہیں ہے۔
مزید یہ کہ نامحرم عورت سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، جس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (55/3، ط: دار الفکر)
وهي هنا نوعان: ولاية ندب على المكلفة ولو بكرا وولاية إجبار على الصغيرة ولو ثيبا ومعتوهة ومرقوقة كما أفاده بقوله (وهو) أي الولي (شرط) صحة (نكاح صغير ومجنون ورقيق) لا مكلفة (فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا (وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد وينبغي إلحاق الحبل الظاهر به.
(قوله ولاية ندب) أي يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لا تنسب إلى الوقاحة بحر وللخروج من خلاف الشافعي في البكر، وهذه في الحقيقة ولاية وكالة (قوله على المكلفة) أي البالغة العاقلة۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی