resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: عورت کا پہلے شوہر سے طلاق لیے بغیر دوسری جگہ نکاح کرنا، جنسی خواہش کی عدم تکمیل" کو بنیاد بنا کر نکاح فسخ کرنے کا حکم (23795-No)

سوال: مفتی صاحب! ایک مرد عورت سے شادی کے فوراً بعد جرمنی چلا گیا ہے، چھ سال ہوگئے ہیں اور اس عورت سے اولاد بھی نہیں ہے، اب نہ تو وہ واپسی آتا ہے اور نہ وہ عورت کو طلاق دیتا ہے حتیٰ کہ عورت طلاق مانگ بھی چکی ہے، کیا اس مرد کے طلاق دیے بغیر عورت کا نکاح دوسرے مرد کے ساتھ کر سکتے ہیں؟
تنقیح:آپ کے سوال میں کچھ ابہام ہیں آپ درج ذیل باتوں کی وضاحت فرمائیں :
1) کیا مذکورہ خاتون کا شوہر بیوی کا نان نفقہ ادا کر رہا ہے؟
2) کیا شوہر کی طرف سے بیوی کو رہائش کی سہولت فراہم کی گئی ہے؟ اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
جواب تنقیح:
اس کو شوہر کی طرف سے خرچہ مکمل مل رہا ہے، لیکن جنسی خواہش کا مسلہ ہے۔

جواب: واضح رہے کہ جب تک عورت کا سابقہ نکاح برقرار ہو، عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا حرام اور سخت گناہ کا کام ہے، جبکہ دوسری جگہ نکاح سے پہلے ضروری ہے کہ عورت کی سابقہ شوہر سے طلاق/خلع ہو جائے اور اس کی عدت بھی گزر جائے۔
پوچھی گئی صورت میں اگر شوہر واپس پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی بیوی کو اپنے پاس جرمنی بلاتا ہے تو بیوی کو چاہیے کہ خاندان کے بزرگوں کے ذریعہ شوہر سے علیحدگی کی کوئی صورت نکال لے، اگر شوہر طلاق دے دیتا ہے تو ٹھیک، ورنہ اسے خلع پر راضی کرلے، اس کے بعد جب عدت گزر جائے تو پھر بیوی کے لیے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنا جائز ہو جائے گا، لیکن اگر شوہر خلع کے لیے بھی راضی نہ ہو، اور جنسی خواہش کی عدم تکمیل کی وجہ سے عورت کے لیے مزید صبر کرنا ممکن نہ ہو، اور گناہ میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو چونکہ جماع اور جنسی خواہش کی تکمیل نکاح کے مقاصد میں سے ہے اور منکوحہ عورت کا حق ہے، شوہر پر اس کی ادائیگی لازم ہے، عورت کے اس حق کو مسلسل نظر انداز کرنے سے آدمی ظالم اور ہٹ دھرم شمار ہوگا، اس لیے عورت عدالت سے رجوع کرکے مسلمان قاضی کے ذریعہ نکاح فسخ کروا سکتی ہے۔
چنانچہ کفایت المفتی میں ہے: "اس صورت میں امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کے موافق نکاح فسخ کیا جاسکتا ہے کیونکہ جوان عورت کے حقوق زوجیت ادا نہ کئے جائیں اور اس کے زنا میں مبتلا ہوجانے کا خدشہ ہو تو مسلمان حاکم نکاح کر سکتا ہے اور حنفیہ بھی ضرورت شدیدہ میں اس پر عمل کر سکتے ہیں۔" (کفایت المفتی: 120/6، ط: دارالاشاعت)
البتہ نکاح فسخ کرنے کے لیے درج ذیل طریقہ اختیار کرنا پڑے گا:
سب سے پہلے عورت مسلمان جج کی عدالت میں "عرصہ دراز سے جنسی خواہش کی عدم تکمیل" کو بنیاد بنا کر نکاح فسخ کرنے کا مقدمہ دائر کرے اور اپنے اس دعویٰ کو گواہوں سے ثابت کرے، اس کے بعد جج شوہر کو عدالت میں حاضر ہونے کا نوٹس جاری کرے، اگر وہ عدالت میں آجاتا ہے تو جج اس سے کہے کہ یا تو اپنی بیوی کی شکایت دور کرکے اسے اپنے پاس رکھو یا اسے طلاق یا خلع دو، ورنہ ہم تم دونوں کے درمیان تفریق کردیں گے، اب اگر شوہر نہ بیوی کو اپنے پاس رکھنے کے لیے راضی ہو اور نہ ہی اس کو طلاق یا خلع دے تو مسلمان جج ان کے درمیان تفریق کرادے، لیکن اگر بار بار نوٹس کے باجود شوہر عدالت میں حاضر نہ ہو تو مسلمان جج بیوی کے گواہوں کی بنیاد پر میاں بیوی کے درمیان نکاح فسخ کرکے تفریق کرادے، تفریق کے بعد عورت عدت گزار کر کسی اور جگہ نکاح کرسکے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (سورۃ البقرۃ، رقم الآیة: 229)
اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَاِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌ بِاِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ شَيْئًا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۖ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۗ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظَّالِمُوْنَ O

البناية: (490/5)
لأنه مانع حقها في الجماع، فينوب القاضي منابه في التسريح كما في الجب والعنة. ولنا أنه ظلمها بمنع حقها فجازاه الشرع بزوال نعمة النكاح عند مضي هذه المدة، وهو المأثور عن عثمان، وعلي، والعبادلة الثلاثة.
م: (لأنه) ش: أي لأن المولي م: (مانع حقها في الجماع) ش: أي ثبوت الإيلاء بقصده الإضرار والتعنت منع حقها في الجماع م: (فينوب القاضي منابه في التسريح) ش: بالإحسان م: (كما في الجب والعنة) ش: أي ينوب القاضي منابه في التفريق فيما إذا وجدت زوجها مجبوبا أو عنينا. وجه القياس: دفع الضرر عنها عند فوت الإمساك بالمعروف.
م: (ولنا أنه ظلمها بمنع حقها) ش: والمستحق عليه وهو الوطء في المدة م: (فجازاه الشرع بزوال نعمة النكاح عند مضي هذه المدة) ش: تخليصا لها عن ضرر التعليق ولا يجعل التخلص بالرجعي فوقع بائنا، ولأن الإيلاء كان طلاقا بائنا على الفور في الجاهلية، بحيث لا يقربها الزوج بعد الإيلاء أبدا فجعله الشرع مؤجلا بقوله تعالى: {تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ} [البقرة: 226] إلى انقضاء المدة، فحصلت الإشارة إلى أن الواقع بالإيلاء بائن لكنه مؤجل.

الدر المختار: (274/3، ط: سعيد)
أما نكاح منكوحة الغير و معتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا .... و لهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما في القنية وغيرها اه.

تکملة فتح الملهم: (134/1، ط: مکتبة دار العلوم کراتشي)
قد قصرت الشريعة الإسلامية حق الطلاق على الزوج، ولم يجعله بيد المرأة في الظروف العادية؛ لأن المرأة من طبيعتها الاستعجال في الأمور، فلو كان خيار الطلاق بيدها لكانت تقع الفرقة لأسباب بسيطة، وأغراض تافهة، ولكنها لم تسدد باب الفرقة من جهة المرأة بالكلية، وإنما أباحت لها ذلك في ظروف خاصة، فيمكن لها مثلاً: أن تعقد النكاح بشرط تفويض الطلاق إليها، ولو لم تشترط ذلك في العقد فلها أن تختلع من زوجها برضاه، وإن لم يكن ذلك فلها أن تطلب من القاضي فسخ النكاح إذا كان زوجها عنيناً، أو مجنوناً، أو متعنتاً، أو مفقوداً.

کفایت المفتی: (120/6، ط: دار الاشاعت)

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce