resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: تحریری طور پر تین طلاق (Divorce) کے بعد رجوع کا حکم(23803-No)

سوال: مجھے میرے شوہرنے کچھ وجوہات کی بنا پر نومبر 2021 میں طلاق دے دی، یہ طلاق بذریعہ تحریری کاغذات میرے شوہر کی جانب سے مجھے موصول ہوئی تھی، جس میں انگریزی میں تین مرتبہ ۔۔۔۔بیوی کا نام۔۔۔ divorce to ۔۔۔۔۔شوہر کا نام۔۔۔۔ لکھا تھا، طلاق کے وقت میں حاملہ تھی۔ اللہ کے فضل سے اب میری ایک بیٹی ہے جس کی عمر تین سال ہے۔ طلاق کے بعد میری عدت (جو کہ حمل کی صورت میں ولادت تک ہوتی ہے) مکمل ہو چکی تھی، اب تقریباً چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے، میں اور میرے سابقہ شوہر آپس کی رضامندی سے دوبارہ صلح اور نکاح کرنا چاہتے ہیں۔
میں اور میرے شوہر دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں، ہمارا دھیان اب زنا کی طرف جارہا ہے کیوں کہ ہم ایک دوسرے سے دور نہیں رہ سکتے ہیں، میں اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی ہوں اور میرا یہ سوچنا ہے کہ میں کسی اور سے نکاح کرلوں یا حلالہ کا سوچوں، میرے لئے ممکن ہے نہیں ہے۔ میں بہت پریشان ہوں، میرا دھیان خودکشی یا میرے سابقہ شوہر سے زنا کی طرف جا رہا ہے۔
میں اپنی اور اپنے سابقہ شوہر کی آخرت نہیں خراب کرنا چاہتی، زنا سے بچانا چاہتی ہوں اور اسی کے ساتھ واپس رہنا چاہتی ہوں، اس کے بغیر زندگی کا تصور کرنا مشکل ہے، میرا معاملہ بہت سنگین ہے، کیا اس صورت میں بھی واپس رجوع کا راستہ نہیں؟
میرے شوہر بھی مجھ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی اس معاملے پہ سنگین ہیں، اسلام تو ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں پیدا کرتا، اسلام تو آسانی کا دین ہے اور اللّٰہ تو ہم سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے تو وو ہمیں کیوں کوئی تکلیف دے گا؟ برائے مہربانی ہمارے پورے معاملے کو دھیان سے توجہ دیں اور کوئی حل بتادیں۔ شکریہ
میری گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا ہمارے لیے اب دوبارہ نکاح کرنا جائز ہے؟ اور اگر نکاح جائز ہے تو اس کے لیے کون سا شرعی طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا؟ برائے مہربانی مکمل شرعی رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور میاں بیوی کے درمیان حرمتِ مغلّظہ ثابت ہوگئی ہے، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
ہاں! اگر عورت عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرے اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرے، پھر وہ اسے اپنی مرضی سے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہوجائے تو ایسی صورت میں وہ عورت عدت گزار کر دوبارہ سابقہ شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔
نیز واضح رہے کہ شریعت کی نظر میں ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں اور اس کے بعد بیوی اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے، یہی حکم قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے ثابت ہے اور اسی پر جمہور صحابہ و تابعین (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کا اجماع ہے اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالی کا بالاتفاق یہی مسلک ہے۔

مزید یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ رب العزت نے دین میں آسانی پیدا کی ہے، لیکن نظامِ حیات کو درست سمت پر چلانے کے لیے اللہ تعالٰی نے انسان کے قول اور فعل کو بھی شریعت کا پابند بنایا ہے، چنانچہ خلاف ورزی کی صورت میں اس کی سزائیں بھی مقرر کی ہیں، مثلاً: زنا، چوری اور تہمت وغیرہ کی سزائیں۔
چونکہ ایک ساتھ تین طلاقیں دینا بھی شرعاً ممنوع اور ناجائز ہے، اس لیے اس قولی جرم کی سزا بھی شریعت نے مقرر کی ہے، تاکہ نظامِ حیات درست رہے اور میاں بیوی نکاح کی نعمت کی ناقدری سے بچیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیه: 230)
فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰی تَنۡکِحَ زَوۡجًا غَیۡرَہٗ ؕ فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنۡ ظَنَّاۤ اَنۡ یُّقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَo

صحیح البخاری: (2014/5، ط: دار ابن کثیر)
عن عائشة: أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: (لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول).

السنن الکبری للبیھقی: (رقم الحدیث: 14943، ط: دار الكتب العلمية)
وأما الأثر الذي أخبرنا أبو علي الروذباري، أنا أبو بكر بن داسة، نا أبو داود، نا حميد بن مسعدة، نا إسماعيل، أنا أيوب، عن عبد الله بن كثير، عن مجاهد قال: كنت عند ابن عباس رضي الله عنهما فجاءه رجل فقال إنه طلق امرأته ثلاثا، قال: فسكت حتى ظننا أنه رادها إليه ثم قال: ينطلق أحدكم فيركب الحموقة ثم يقول: يا ابن عباس يا ابن عباس وإن الله جل ثناؤه قال: {ومن يتق الله يجعل له مخرجا} [الطلاق: ٢] وإنك لم تتق الله فلا أجد لك مخرجا عصيت ربك وبانت منك امرأتك وإن الله قال: {يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن} [الطلاق: ١] " في قبل عدتهن " هكذا في هذه الرواية ثلاثا

مرقاة المفاتيح: (2149/5 ط: دار الفكر)
وفي شرح السنة: العمل على هذا عند عامة أهل العلم من الصحابة وغيرهم، وقالوا: إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا فلا تحل له بعد ذلك حتى تنكح زوجا غيره، ويصيبها الزوج الثاني، فإن فارقها أو مات عنها قبل إصابتها فلا تحل ولا تحل إصابة شبهة ولا زنا ولا ملك يمين

الدر المختار: (232/3)
( والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين ) في طهر واحد ( لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه ، أو ) واحدة في ( حيض موطوءة ).. الخ

المبسوط للسرخسي: (9/6، ط: دار المعرفة)
ولأن المقصود منع الأزواج من الاستكثار من الطلاق وذلك لا يحصل بمجرد العقد إنما يحصل بالدخول ففيه مغايظة الزوج الأول ودخول الثاني بها بالنكاح مباح مبغض عند الزوج الأول كما أن الاستكثار من الطلاق مبغض شرعا ليكون الجزاء بحسب العمل.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce