سوال:
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: تین بندوں کی دعا اللہ تعالی قبول نہیں فرمایا: (1) وہ مرد جس کے نکاح میں بُرے اخلاق والی عورت ہو، لیکن وہ اسے طلاق نہ دے۔ (2) جس نے کسی دوسرے کو مال ادھار دیا، لیکن اس پر کوئی گواہ نہیں بنایا۔ (3) جس نے کسی بے وقوف کو مال دیا، جبکہ اللہ تعالی واضح طور پرفرماتے ہیں کہ : "تم بے وقوفوں کو اپنا مال نہ دو"۔
مذکورہ روایت میں پہلی شق(وہ مرد جس کے نکاح میں برے اخلاق والی عورت ہو، لیکن وہ اسے طلاق نہ دے)، براہِ کرم اس جملہ کی وضاحت فرمادیں؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت معمولی کلمات کی تبدیلی کے ساتھ متعدد کتبِ حدیث میں وارد ہے:
1۔ المستدرك علی الصحیحین للحاكم(تفسير سورة النساء، 331/2، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطاء الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)
2۔ شرح مشکل الآثار لأبي جعفر الطحاوي (باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الثلاثة الذين يدعون الله عز وجل فلا يستجيب لهم، 356/6، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، الناشر: مؤسسة الرسالة)
3۔ شعب الإیمان للبيهقي (باب حسن الخلق، 392/10، حققه وراجع نصوصه وخرج أحاديثه: الدكتور عبد العلي عبد الحميد حامد، الناشر: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض بالتعاون مع الدار السلفية ببومباي بالهند)
4۔ الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار لابن أبي شیبة (کتاب النکاح، المرأة الصالحة والسیئة الخلق، 559/3، المحقق: كمال يوسف الحوت، الناشر: مكتبة الرشد – الرياض)
حدیث میں موجود جملہ"برے اخلاق والی بیوی کو طلاق نہ دینے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی" کی وضاحت:
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے طلاق کو حلال اشیاء میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے، مگر میاں بیوی کے درمیان مزاج کی موافقت نہ ہونے کی صورت میں شدید ضرورت کے وقت شوہر کو طلاق دینے کا اختیار دیا ہے۔دریافت کردہ حدیث سے بد اخلاق بیوی کو طلاق دینے کی اجازت معلوم ہوتی ہے، البتہ شرعاً اس کو طلاق دینا واجب نہیں ہے، بلکہ اگر وہ اس کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے تو گناہ گار نہیں ہوگا۔
حدیث میں تین لوگوں کی دعا قبول نہ کیے جانے کا ذکر ہے، کیونکہ حدیث بالا میں مذکور اعمال مکمل طور پر انہی کے اختیار و وسعت میں ہیں، اس کے باوجود اگر وہ خود کچھ کیے بغیر محض دعا کے ذریعے اپنا مطلوب حاصل کرنا چاہیں تو خاص ان معاملات میں ایسے تینوں لوگوں کی دعا قبول نہیں کی جائے گی۔
بد اخلاقی کی تعریف امام غزالی رحمہ اللہ نے یوں ذکر کی ہے کہ اگر کسی انسان سے برے افعال اس طرح سے ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ ہوں تو اسے بداخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے، لہذا اگر کسی خاتون سے اسی قسم کے افعال صادر ہوتے ہوں تو وہ بداخلاق تصور کی جائے گی، جیسے عورت کا زبان دراز ہونا، شوہر کی اطاعت سے خود کو آزاد تصور کرنا وغیرہ۔
اگر کوئی بیوی اس قدر بد اخلاق ہو کہ شوہر اس کی بد اخلاقی پر صبر نہیں کرسکتا، اور وہ اس کو طلاق دے کر علیحدگی اختیار کرنے کے بجائے بارگاہ الہی میں اس سے خلاصی کی دعا کرتا ہو، حالانکہ اس کے پاس شرعی لحاظ سے خلاصی کی بہترین راہ موجود ہے، اس کے باوجود بددعا دینا یہ اس خاص مادے میں اس کو غیر مستجاب بنادیتا ہے۔
علماء کرام نے اس کی حکمت بھی ذکر کی ہے کہ ایسی خاتون آگے چل کر اس کی اولاد و خاندان کے لیے باعثِ عار بن سکتی ہے، لہذا ایسی خاتون کو طلاق دینے کی اجازت دی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل :
مسند ابن الجعد (ترجمة: شعبة،عن أبي إياس، 1/166، تحقيق: عامر أحمد حيدر، الناشر: مؤسسة نادر – بيروت)
«ما أفاد امرؤ بعد إيمان بالله مثل امرأة حسنة الخلق، ودود ولود۔ وما أفاد امرؤ بعد كفر بالله مثل امرأة سيئة الخلق حديدة اللسان، وإن منهن لغنما ما يجدي منه، وغلاما يفدى منه»
مسند ابن الجعد (ترجمة: شعبة،عن أبي إياس، 1/166، تحقيق: عامر أحمد حيدر، الناشر: مؤسسة نادر – بيروت)
مسند أبي حنیفة روایة أبي نعیم (روایته عن علقمة بن مرثد، 1/153، المحقق: نظر محمد الفاريابي، الناشر: مكتبة الكوثر – الرياض)
«الشؤم في ثلاث: في الدار، والفرس، والمرأة۔ شؤم الدار: لها جيران سوء، وشؤم الفرس: أن يكون جموحا يمنع ظهره، وشؤم المرأة: أن تكون سيئة الخلق عاقرا»
مسند أبي حنیفة روایة أبي نعیم لأبي نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430ه) (روایته عن علقمة بن مرثد، 1/153، المحقق: نظر محمد الفاريابي، الناشر: مكتبة الكوثر – الرياض)
الدر المختار، لمحمد بن علي الحنفي الحصکفي، (کتاب الطلاق، 3/229، الناشر: دار الفكر-بيروت)
وقولهم: الأصل فيه الحظر، معناه أن الشارع ترك هذا الأصل فأباحه، بل يستحب لو مؤذية أو تاركة صلاة غاية، ومفاده: أن لا إثم بمعاشرة من لا تصلي۔
الدر المختار، لمحمد بن علي بن عبدالرحمن الحنفي الحصکفي، )ضمن کتاب "الدر المختار وحاشیة ابن عابدین"، کتاب الطلاق، 3/229، الناشر: دار الفكر-بيروت)
فیض القدیر للمناوي، (حرف الثاء، 3/336، الناشر: المكتبة التجارية الكبرى – مصر)
(ثلاثة يدعون الله عز وجل فلا يستجاب لهم رجل كانت تحته امرأة سيئة الخلق) بالضم (فلم يطلقها) فإذا دعى عليها لا يستجيب له لأنه المعذب نفسه بمعاشرتها وهو في سعة من فراقها۔۔۔ الخ
(فیض القدیر لزين الدين محمد المدعو بعبد الرؤوف المناوي القاهري، (حرف الثاء، 3/336، الناشر: المكتبة التجارية الكبرى – مصر)
إحياء علوم الدين للغزالي الطوسي (المتوفى: 505ه) (کتاب ریاضة النفس وتهذیب الأخلاق ومعالجة أمراض القلب، 3/48، الناشر: دار المعرفة – بيروت)
فالخلق: عبارة عن هيئة في النفس راسخة عنها، تصدر الأفعال بسهولة ويسر من غير حاجة إلى فكر ورويّة۔ فإن كانت الهيئة بحيث تصدر عنها الأفعال الجميلة المحمودة عقلا وشرعا، سميت تلك الهيئة خلقا حسنا۔ وإن كان الصادر عنها الأفعال القبيحة سميت الهيئة التي هي المصدر خلقا سيئا۔
إحياء علوم الدين، لأبي حامد محمد بن محمد الغزالي الطوسي (المتوفى: 505ه) (کتاب ریاضة النفس وتهذیب الأخلاق ومعالجة أمراض القلب، 3/48، الناشر: دار المعرفة – بيروت)
والله تعالی أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص کراچی