سوال:
محترم مفتی صاحب! درج ذیل روایت کا حوالہ درکار ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ فرات (دریا) سُوکھ نہ جائے اور اس کے نیچے سے ایک سونے کا پہاڑ ظاہر نہ ہو۔ سو لوگ اس پر(قبضہ کے لیے) لڑیں گے اور ہر سو (100) آدمیوں میں سے ننانوے (99) مارے جائیں گے اور ہر شخص کہے گا کہ شاید میں وہ ہوں جو بچ جائے تو جو شخص اُس وقت زندہ ہو، وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے"۔
جواب: دریافت کردہ کلمات دراصل دو روایات کا مجموعہ ہے، جن کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی ”صحیح “ میں نقل کیا ہے، روایت کی سند قابل اعتماد راویوں پر مشتمل ہے، اس بناء پر روایت کو آگے نقل کرنا درست ہے۔ دونوں روایات کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
پہلی روایت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”قريب ہے کہ دریائے فرات (خشک ہوکر) سونے کے خزانے کو ظاہر کردے۔ لہٰذا جو شخص اس وقت موجود ہو، اس میں سے کچھ بھی نہ لے“۔ (صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب: لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب، 174/8، رقم الحدیث : 2894 ، الناشر: دار الطباعة العامرة - تركيا)
دوسری روایت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکل آئے جس پر لڑائی ہوگی اور ہر سو ميں سے ننانوے آدمی مارے جائيں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ سوچے گا کہ شاید میں بچ جاؤں“۔(صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب: لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب، 174/8، رقم الحدیث: 2894، الناشر: دار الطباعة العامرة - تركيا)
دریا فرات سے سونا اکھٹا کرنے کی ممانعت کا سبب:
اس حوالہ سے شارحین حدیث نے دو وجوہات ذکر کی ہیں:
(1) چونکہ اکثر وبیشتر دنیوی مال ومتاع کی حرص انسان کو قتل وغارت گری جیسے قبیح ترین افعال پر آمادہ کردیتی ہے، بالکل اسی طرح یہاں بھی دریا فرات سے خزانہ اکٹھا کرنے میں بھی موت کا آنا غالب ہے، چونکہ حدیث کے مطابق سو میں سے ایک شخص ہی کی نجات ممکن ہے، سو ایسے غالب مواقع پر خود کو موت کے آگے پیش کرنا خودکشی کے مترادف ہے یا کم از کم خود کو ایک بڑی سخت آزمائش میں مبتلا کرنا ہے، لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔ (المفاتیح فی شرح المصابیح، کتاب الفتن، باب أشراط الساعة، ٣٩٥/٥، رقم الحدیث:٤١٨٤، الناشر: دار النوادر، وهو من إصدارات إدارة الثقافة الإسلامية - وزارة الأوقاف الكويتية)
(2) یہ دریافت ہونے والا خزانہ قارون کے خزانے کی مانند خدا کی ناراضگی مول لینے کا سبب وذریعہ ہے، سو نبیﷺ نے اس حوالہ سے پیشگی طور پر امت کو باخبر کیا ہے کہ اس خدا کی رحمت سے دور کرنے والے دریا فرات کے خزانے کو اکٹھا کرنے میں خود کو مشغول ہونے سے بچانا (بذل المجهود ، للشيخ خليل َأحمد السهارنفوري، باب حسر الفرات عن کنز، ٣٦٥/١٢ ، الناشر: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داؤد: (کتاب الملاحم، باب حسر الفرات عن کنز، رقم الحدیث: 4313، 196/4، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي، الهند)
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يوشك الفرات أن يحسر عن كنز من ذهب فمن حضره فلا يأخذ منه شيئا.
کذا أخرجه مسلم بن الحجاج القشیري، کتاب الفتن، باب: لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب، 174/8، رقم الحدیث: 2894، الناشر: دار الطباعة العامرة - تركيا)
صحیح مسلم: (کتاب الفتن، باب لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب، رقم الحدیث: 2894، 174/8، ط: دار الطباعة العامرة، تركيا)
عن أبي هريرة : أن رسول الله ﷺ قال: « لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب، يقتتل الناس عليه، فيقتل من كل مائة تسعة وتسعون، ويقول كل رجل منهم: لعلي أكون أنا الذي أنجو.
المفاتیح: (کتاب الفتن، باب أشراط الساعة، رقم الحدیث: 4184، 395/5، ط: دار النوادر، وهو من إصدارات إدارة الثقافة الإسلامية، وزارة الأوقاف الكويتية)
"ويحتمل أن يريد أنه مال مغضوب عليه كَمَالِ قارون ،والمالُ المغضوب عليه غضبًا إلهيًا، كثير النكد، يحرمُ الانتفاع به. والحديث الذي بعده يدل عليه، وهو قوله - عليه الصلاة والسلام” -: لا تقومُ السَّاعة حتى يَحْسِرَ الفراتُ عن جَبلٍ من ذهبٍ يقتتلُ الناس”.
بذل المجهود: (باب حسر الفرات عن کنز، 365/12، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
قوله :ﷺ يوشك) أي يقرب (الفرات أن يحسر) أي يزول وينكشف (عن كنز من ذهب) فيظهر ذلك، أي جبل منه كما سيأتي (فمن حضره فلا يأخُذْ منه شيئًا) وإنما نهى عن أخذه؛ لأن أخذه شركة في الفتنة؛ لأنه يقع فيه الاقتتال".
والله تعالی أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،کراچی