سوال:
اگر کسی نے مدینے میں 14 دن قیام کی نیت کی پھر مکہ جانے کے سلسلہ میں تذبذب تھا کہ شاید جائیں یا شاید نہ جائیں اور نماز پوری پڑھی قصر نہیں پڑھی اور مدینے میں 15 دن سے زیادہ قیام ہو گیا تو ان کو کون سی نماز پڑھنی تھی اور اگر قصر پڑھنی تھی تو کیا نماز لوٹانی ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ شرعی مسافر کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ اپنے شہر کی آبادی سے نکل جائے تو ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نمازوں میں قصر کرتے ہوئے چار رکعتوں کے بجائے دو رکعت ادا کرے یہاں تک کہ وہ اپنے شہر میں داخل ہو جائے یا دورانِ سفر کسی شہر میں پندرہ دن و رات یا اس سے زیادہ کی اقامت کی نیت کرلے۔
پوچھی گئی صورت میں چونکہ مذکورہ مسافر نے مدینہ منورہ میں چودہ دن قیام کی نیت کی تھی، اس لیے اس پر لازم تھا کہ وہ ظہر، عصر اور عشاء کی نمازوں میں (تنہا ادا کرنے کی صورت میں) قصر کرتا، پہلے سے نیت نہ ہونے کی صورت میں پندرہ دن یا اس سے زائد رہنے کے باوجود یہ مسافر کے حکم میں ہوگا۔
لہذا اگر مذکورہ مسافر نے تنہا پڑھی جانے والی ظہر، عصر اور عشاء کے فرض کی دوسری رکعت کے آخر میں قعدہ کرلیا تھا تو اس کی فرض نماز ذمہ سے ساقط ہوگئی ہے، البتہ وقت کے اندر اس نماز کا اعادہ واجب تھا، وقت گزر جانے کے بعد اب اس نماز کا اعادہ مستحب ہے۔
اور اگر دوسری رکعت پر قعدہ نہیں کیا تو چونکہ قعدہ اخیرہ فرض ہے، اور فرض کے چھوٹ جانے سے نماز ادا نہیں ہوتی، لہذا فرض ادا نہ ہونے کی وجہ سے اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (409/2، ط: سعید)
فلو أتم مسافر إن قعد في القعدة الأولیٰ تم فرضه ولکنه أساء، لو عامداً ؛ لتاخیر السلا م، وترک واجب القصر، وواجب تکبیرة افتتاح لنقل، وخلط النفل بالفرض و هذا لا یحل۔''
و فیه ایضاً: (426/2، ط: سعید)
قید فی البحر فی باب قضاء الفوائت وجوب الاعادۃ فی اداء الصلوۃ مع کراھۃ التحریم بما قبل خروج الوقت، اما بعد فتستحب...
الهداية: (174/1، ط: مکتبه رحمانیه)
"ولو دخل مصرًا على عزم أن يخرج غدًا أو بعد غد ولم ينو مدة الإقامة حتى بقي على ذلك سنين قصر" لأن ابن عمر رضي الله عنه أقام بأذربيجان ستة أشهر وكان يقصر وعن جماعة من الصحابة رضي الله عنهم مثل ذلك".
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی