عنوان: خوابوں کی حقیقت، اقسام اور ان کا شرعی حکم(2386-No)

سوال: مفتی صاحب! معلوم یہ کرنا ہے کہ خواب کی کیا حقیقت ہے؟

جواب: ۱) واضح رہے کہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی کا خواب شرعاً حجت نہیں ہے، یعنی خواب کی بنیاد پر کوئی شرعی حکم ثابت نہیں کیا جاسکتا اور ‏نہ ہی خواب اور اس کی تعبیر پر عمل کرنا یا اس کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنا شرعاً ضروری ہے۔
ہر خواب سچا اور بامعنیٰ نہیں ہوتا، بلکہ خوابوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، جس کی تفصیل درج ذیل ‏ہے:‏
‏الف)‏ بیداری کی حالت میں انسان جو صورتیں دیکھتا ہے یا دن بھر جو کچھ سوچتا ہے، وہی صورتیں اور خیالات ‏اسے خواب میں (شکل کی صورت میں) نظر آتی ہیں۔ ان خوابوں کو "حدیث النفس" اور "انسانی خیالات" ‏کہا جاتا ہے۔
‏ب)‏ کبھی شیطان انسان کے ذہن میں خوشی یا غم کی کچھ صورتیں اور واقعات ڈالتا ہے، جو کہ "شیطانی ‏خیالات" کہلاتی ہیں۔ خواب کی مذکورہ دونوں قسمیں بے معنیٰ ہیں، لہذا ان کی طرف توجہ نہیں کرنا چاہیے۔
‏ج)‏ تیسری قسم کے وہ خواب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور سچے اور بامعنیٰ ہوتے ہیں، یہ ‏‏"الہامات" کہلاتے ہیں اور اسی قسم کو حدیث میں نبوت کا جزء قراردیا گیا ہے، جیسا کہ ایک حدیث ‏میں ہے:‏حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ‏‏"مؤمن کا خواب نبوت کے اجزاء میں سے چھیالیسواں جز ہے"۔ (صحیح بخاری: حدیث نمبر: 6988)‏ لیکن یہ خواب بھی کوئی دلیل شرعی نہیں ہے۔
نوٹ: یہ بات بھی قرآن و حدیث سے ثابت اور تجربات سے معلوم ہے کہ سچے خواب بعض اوقات فاسق فاجر بلکہ کافر کو بھی آسکتے ہیں، سورہ یوسف ہی میں حضرت یوسف علیہ السلام کے جیل کے دو ساتھیوں کے خواب اور ان کا سچا ہونا، اسی طرح بادشاہِ مصر کا خواب اور اس کا سچا ہونا قرآن میں مذکور ہے۔۔۔۔ بہرحال سچے خواب عام اُمت کے لیے حسبِ تصریحِ حدیث ایک بشارت یا تنبیہ سے زائد کوئی مقام نہیں رکھتے، نہ خود اس کے لیے کسی معاملہ میں حجت ہیں نہ دوسروں کے لیے، بعض نا واقف لوگ ایسے خواب دیکھ کر طرح طرح کے وساوس میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کوئی ان کو اپنی ولایت کی علامت سمجھنے لگتا ہے، کوئی ان سے حاصل ہونے والی باتوں کو شرعی احکام کا درجہ دینے لگتا ہے یہ سب چیزیں بے بنیاد ہیں، خصوصاً جبکہ یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ سچے خوابوں میں بھی بکثرت نفسانی یا شیطانی یا دونوں قسم کے تصورات کی آمیزش کا احتمال ہے۔ (معارف القرآن: (29/5، ط: إدارة المعارف)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (رقم الحدیث: 6988)‏
عن أبي هريرة رضي الله عنه،: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «رؤيا ‏المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة»‏‎.‎

صحيح البخاري: (رقم الحدیث: 6995)‏
عن أبي قتادة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «الرؤيا الصالحة من الله، ‏والحلم من الشيطان، فمن رأى شيئا يكرهه فلينفث عن شماله ثلاثا وليتعوذ من ‏الشيطان، فإنها لا تضره وإن الشيطان لا يتراءى بي»۔

صحيح مسلم: (رقم الحدیث: 2263)‏
‏ عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا اقترب الزمان لم تكد ‏رؤيا المسلم تكذب، وأصدقكم رؤيا أصدقكم حديثا، ورؤيا المسلم جزء من ‏خمس وأربعين جزءا من النبوة، والرؤيا ثلاثة: فرؤيا الصالحة بشرى من الله، ورؤيا ‏تحزين من الشيطان، ورؤيا مما يحدث المرء نفسه، فإن رأى أحدكم ما يكره فليقم ‏فليصل، ولا يحدث بها الناس " قال: «وأحب القيد وأكره الغل والقيد ثبات في ‏الدين» فلا أدري هو في الحديث أم قاله ابن سيرين "‏‎.‎

سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 2280)‏
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الرؤيا ثلاث، فرؤيا ‏حق، ورؤيا يحدث بها الرجل نفسه، ورؤيا تحزين من الشيطان فمن رأى ما يكره ‏فليقم فليصل‎.‎

معارف القرآن از مفتی ‏محمد شفیعؒ: (18/5، ط: مکتبة معارف القرآن)‏

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 3140 Nov 01, 2019
khuwab ki shari hesiyat, The legal status of the dream

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.