سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! 1 آدمی کا اپنا مکان ہے، اسکو پیسوں کی ضرورت پڑ گئی ہے، اس نے اپنا گھر گروی پر 10 لاکھ کا دے دیا، لیکن جس کو دیا، وہ اس گھر میں نہیں رہے گا، گھر میں یہی رہے گا، جس کا گھر ہے، لیکن یہ اس بندہ کو کرایہ دے گا، جس کو گروی دیا ہے اور 3 سال کے لیے دیا ہے، تو اِس کے بارے میں بتا دیں کہ یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ قرض دے کر کچھ نفع حاصل کرنا سود کہلاتا ہے، اور سود لینا اور دینا اسلام میں نص قطعی سے ناجائز اور حرام ہے۔
اسی وجہ سے (مرتہن) کے لیے رہن کے مکان کا کرایہ وصول کرنا، کسی صورت ميں جائز نہیں ہے، اگرچہ مالک اس کی اجازت دے دے، کیونکہ شریعت نےقرض دے کر اس پر کچھ بھی نفع حاصل کرنے کو سود قرار دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
اعلاء السنن: (باب الانتفاع بالمرہون، رقم الحدیث: 5818، 64/18، ط: ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیۃ)
عن ابن سیرین قلا: جار رجل إلی ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ فقال: إن رجلا رہنني فرسًا فرکبتہا، قال: ما أصبت من ظہرہا فہو ربا۔
و فیہ ایضاً: (باب الانتفاع بالمرھون، رقم الحدیث: 5819، 74/18)
عن طاؤس قال: فی کتاب معاذ بن جبل: من ارتہن أرضًأ فہو بحسب ثمرہا لصاحب الرہن من عام حج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
و فیہ ایضاً: (باب الانتفاع بالمرھون، 64/18، ط: ادارۃ القرآن و الاسلامیۃ)
قال العلامۃ العثماني: قلت: ہٰذان الأثران یدلان علی أنہ لا یجوز للمرتہن الانتفاع بالمرہون؛ لأنہ ربا۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی