سوال:
ایک شخص نے دوسرے شخص کو حدیث سنائی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: "اگر تم گناہ نہ کرو گے تو اللہ تمہیں موت دے کر ایسے لوگ پیدا کرے گا، جو گناہ کر کے توبہ کریں گے" تو دوسرے شخص نے کہا کہ نعوذ باللہ! یہ کیسی بات ہے؟ میں یہ بات نہیں مانتا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس دوسرے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: آپ نے جو روایت بیان کی ہے، اس بارے میں سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ حدیث "صحیح" ہے اور حدیث کی مشہور کتاب "صحیح مسلم" میں ذکر کی گئی ہے۔
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی شانِ غفّاریت کا بیان کیا گیا ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کی بخشش سے اتنی خوشی ہوتی ہے کہ بالفرض اگر انسان (جن کی سررشت میں خطا کار ہونا موجود ہے) گناہ نہ کریں اور فرشتہ صفت بن جائیں، ان سے گناہ سرزد ہی نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاریت کا اظہار کن پر ہوگا اور پھر اللہ تعالیٰ کس کی بخشش فرمائیں گے؟ اس کا لازمی تقاضا یہ ہوگا کہ ایسی مخلوق پیدا کی جائے جو گناہ کرے تو اس کی مغفرت کر کے اللہ تعالیٰ کی شانِ غفّاریت کا اظہار ہو۔ اس حدیث کا یہ مفہوم سمجھنا کہ (معاذ اللہ) اس حدیث میں گناہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے، بالکل غلط مفہوم ہے، ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ اور تشریح ذکر کی جاتی ہے:
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی وفات کے وقت فرمایا کہ میں نے ایک بات رسول اللہ ﷺسے سنی تھی اور تم سے اب تک چھپائی تھی اب جب کہ میرا آخری وقت ہے وہ میں تم کو بتاتا ہوں اور وہ امانت تمہارے سپرد کرتا ہوں میں نے حضور ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے: اگر بالفرض تم سب ملائکہ کی طرح بے گناہ ہو جاؤ اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا کرے گا، جن سے گناہ سرزد ہوں گے، پھر اللہ تعالی ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمائے گا اور اس طرح اس کی شانِ غفاریت کا اظہار ہوگا"۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر: 2748)
تشریح: اس حدیث سے یہ بات سمجھنا کہ اللہ تعالی کو (معاذ اللہ) گناہ مطلوب ہیں اور وہ گناہ گاروں کو پسند فرماتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعے گناہوں اور گناہ گاروں کی ہمت افزائی فرمائی ہے بڑی جاہلانہ غلط فہمی ہو گی۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو گناہوں سے بچایا جائے اور اعمال صالحہ کی ترغیب دی جائے۔ دراصل حدیث کا منشا اور مدعا اللّٰہ تعالی کی شانِ غفّاریت کا ظاہر کرنا ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالی کی صفت خالقیت کے ظہور کے لیے ضروری ہے کہ کوئی مخلوق پیدا کی جائے اور صفت رزاقیت کے لیے ضروری ہے کہ کوئی مخلوق ہو جس کو رزق کی ضرورت ہو اور اللہ تعالی اس کو رزق عطا فرمائے، علی ہذا القیاس جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفت ہدایت کے لیے ضروری ہے کہ کوئی مخلوق ہو جس میں ہدایت لینے کی صلاحیت ہو اور اللہ تعالی کی طرف سے اس کو ہدایت ملے، اسی طرح اللہ تعالی کی شانِ غفاریت کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسی مخلوق ہو، جس سے گناہ بھی سرزد ہوں، پھر وہ اللہ تعالی کے حضور میں استغفار کرے اور گناہوں کی معافی اور بخشش مانگے اور پھر اللہ تعالی اس کی مغفرت اور بخشش کا فیصلہ فرمائے، اس لیے ناگزیر ہے اور ازل سے طے ہے کہ اس دنیا میں گناہ کرنے والے بھی ہوں گے اور ان میں سے جن کو توفیق ملے گی وہ استغفار بھی کریں گے اور اللہ تعالی ان کی مغفرت کا فیصلہ بھی فرمائے گا اور اس طرح اس کی صفت مغفرت اور شانِ غفاریت کا ظہور ہو گا۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا اپنی زندگی میں اس خیال سے کبھی تذکرہ نہیں کیا کہ کم فہم لوگ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں، پھر اپنے آخری وقت میں اپنے خاص لوگوں سے اظہار فرما کر امانت گویا ان کے سپرد کر دی، یہی مجموعہ الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
(ماخوذ از معارف الحدیث: 5/ 202، مؤلفہ: مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللّٰہ، طبع: دارالاشاعت، کراچی)
عموماً لوگوں کو ایسی روایات کا علم نہیں ہوتا ہے، اگر علم ہو بھی تو اس کا غلط مفہوم ذہن میں سمجھ لیا ہوتا ہے، بظاہر جن صاحب نے اس روایت کو سن کر ماننے سے انکار کر دیا ہے، اس کی وجہ حدیث کا انکار کرنا نہیں ہو گا، بلکہ اس کے علم میں پہلی مرتبہ ایسی حدیث آئی جس میں گناہ کے متعلق اس کے ذہن کے مطابق اجازت دی گئی ہے، جبکہ یہ مفہوم غلط ہے۔
اگرچہ ان کا یہ طرزِ عمل نامناسب ہے کہ جس بات کا علم نہ ہو اسے ماننے سے ہی انکار کر دیا جائے، بلکہ اس بارے میں صحیح علم حاصل کرنا چاہیے اور اس کا صحیح مفہوم علماء کرام سے سمجھنا چاہیے۔ جب تک یقین سے نہ معلوم ہو کہ وہ شخص حدیث کو ماننے سے انکار کر رہا ہے، اس وقت تک اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (كتاب التوبة/ باب سقوط الذنوب بالاستغفار توبة، 4/ 2105، رقم الحدیث 9- (2748)، ط: دار إحياء التراث العربي – بيروت)
عن أبي أيوب، أنه قال حين حضرته الوفاة: كنت كتمت عنكم شيئا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "لولا أنكم تذنبون لخلق الله خلقا يذنبون يغفر لهم".
فيض القدير: (5/ 342، ط: المكتبة التجارية الكبرى-مصر)
"قال الغزالي: جعل العجب أكبر من الذنوب ولو لم يذنب العبد لاستكثر فعله واستحسن عمله فلحظ أفعاله المدخولة وطاعاته التي هي بالمعاصي أشبه وإلى النقص أقرب فيرجع من كنف الله وحفظه إلى استحسان فعله فيهلك قال الطيبي: لم يرد به ونحوه قلة الاحتفال بمواقعة الذنوب كما توهمه أهل الغرة بل إنه كما أحب أن يحسن إلى المحسن أحب التجاوز عن المسيء فمراده لم يكن ليجعل العباد كالملائكة منزهين عن الذنوب بل خلق فيهم من يميل بطبعه إلى الهوى ثم كلفه توقيه وعرفه التوبة بعد الابتلاء فإن وفى فأجره على الله وإن أخطأ فالتوبة بين يديه فأراد المصطفى صلى الله عليه وسلم أنكم لو تكونون مجبولين على ما جبلت عليه الملائكة لجاء الله بقوم يتأتى منهم الذنوب فيتجلى عليهم بتلك الصفات على مقتضى الحكمة فإن الغفار يستدعي مغفورا والسر في هذا إظهار صفة الكرم والحلم والغفران ولو لم يوجد لانثلم طرف من صفات الألوهية والإنسان إنما هو خليفة الله في أرضه يتجلى له بصفات الجلال والإكرام في القهر واللطف وقد تقدم ذلك كله مع زيادة".
دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين: (4/ 327، ط: دار المعرفة-بيروت)
"قال ابن ملك: ليس هذا تحريضاً للناس على الذنوب بل كان صدوره لتسلية الصحابة وإزالة شدة الخوف عن صدورهم، لأن الخوف كان غالباً عليهم حتى فر بعضهم إلى رؤوس الجبال للعبادة، وبعضهم اعتزل النساء، وبعضهم النوم، وفي الحديث تنبيه على رجاء مغفرة الله تعالى وتحقق أن ما سبق في علمه كائن لأنه سبق في علمه تعالى أنه يغفر للعاصي فلو قدر عدم عاص لخلق الله من يعصيه فيغفر له".
تحفة الأحوذي: (9/ 367، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)
"قال الطيبي ليس في الحديث تسلية للمنهمكين في الذنوب كما يتوهمه أهل الغرة بالله تعالى فإن الأنبياء صلوات الله وسلامه عليهم إنما بعثوا ليردعوا الناس عن غشيان الذنوب بل بيان لعفو الله تعالى وتجاوزه عن المذنبين ليرغبوا في التوبة والمعنى المراد من الحديث هو أن الله كما أحب أن يعطي المحسنين أحب أن يتجاوز عن المسيئين وقد دل على ذلك غير واحد من أسمائه الغفار الحليم التواب العفو أو لم يكن ليجعل العباد شأنا واحدا كالملائكة مجبولين على التنزه من الذنوب بل يخلق فيهم من يكون بطبعه ميالا إلى الهوى متلبسا بما يقتضيه ثم يكلفه التوقي عنه ويحذره عن مداناته ويعرفه التوبة بعد الابتلاء فإن وفى فأجره على الله وإن أخطأ الطريق فالتوبة بين يديه كذا في المرقاة".
رد المحتار: (223/4، ط: سعید)
"ثم نقل في نور العين عن رسالة الفاضل الشهير حسام جلبي من عظماء علماء السلطان سليم بن بايزيدخان ما نصه إذا لم تكن الآية أو الخبر المتواتر قطعي الدلالة أو لم يكن الخبر متواترا، أو كان قطعيا لكن فيه شبهة أو لم يكن الإجماع إجماع الجميع أو كان ولم يكن إجماع الصحابة أو كان ولم يكن إجماع جميع الصحابة أو كان إجماع جميع الصحابة ولم يكن قطعيا بأن لم يثبت بطريق التواتر أو كان قطعيا لكن كان إجماعا سكوتيا ففي كل من هذه الصور لا يكون الجحود كفرا يظهر ذلك لمن نظر في كتب الأصول فاحفظ هذا الأصل فإنه ينفعك في استخراج فروعه حتى تعرف منه صحة ما قيل، إنه يلزم الكفر في موضع كذا، ولا يلزم في موضع آخر. اه".
الفتاوى الهندية: (كتاب السير، مطلب في موجبات الكفر، 265/2، ط: رشیدیة)
"ومن أنكر المتواتر فقد كفر، ومن أنكر المشهور يكفر عند البعض، وقال عيسى بن أبان: يضلل ولا يكفر، وهو الصحيح ومن أنكر خبر الواحد لا يكفر غير أنه يأثم بترك القبول هكذا في الظهيرية".
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی