عنوان: استخارہ کا مسنون طریقہ(2410-No)

سوال: مفتی صاحب ! مجھے استخارہ کرکے یہ بتلادیں کہ میرا کراچی میں رہ کر کام کرنا بہتر ہے یا گاؤں میں کام کرنا بہتر ہے؟

جواب: استخارہ ایک مسنون عمل ہے اور استخارے میں سنت یہی ہے کہ صاحبِ معاملہ خود استخارہ کرے، دوسروں سے استخارہ کروانا مسنون عمل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے، جس کا مقصود صرف یہ ہے کہ بندہ  استخارہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر تا ہے کہ میں جو کچھ کروں، اس کے اندر خیر ڈال دے اور جس کام میں میرے لئے خیر نہ ہو، اس سے مجھے دور فرما دیجئے، استخارہ کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہمیں پتہ چل جائے کہ یہ کام ہمارے لئے خیر ہے یا شر۔ اور استخارہ میں اصل قلبی (دل کا) اطمينان ہے، اگر ایک دفعہ میں اطمینان نہ ہو تو سات دفعہ تک کیا جائے. ان شاء اللہ تعالیٰ رجحان اور اطمینان حاصل ہو جائے گا، اس سے زیادہ بھی جتنی بار چاہے ،استخارہ کر سکتا ہے ۔ استخارہ کا مقصد محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :  ”واضح ہو کہ استخارہ مسنونہ کا مقصد یہ ہے کہ بندے کے ذمے جو کام تھا وہ اس نے کرلیا اور اپنے آپ کو حق تعالی کے علم محیط اور قدرت کاملہ کے حوالہ کردیا ، گویا استخارہ کرنے سے بندہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا ، ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسان کسی تجربہ کار عاقل اور شریف شخص سے مشورہ کرنے جاتا ہے تو وہ شخص صحیح مشورہ ہی دیتا ہے اور اپنی مقدور کے مطابق اس کی اعانت بھی کرتا ہے ، گویا استخارہ کیا ہے ؟حق تعالی سے مشورہ لینا ہے ،اپنی درخواست استخارہ کی شکل میں پیش کردی ، حق تعالی سے بڑھ کر کون رحیم وکریم ہے ؟ اس کا کرم بے نظیر ہے ، علم کامل ہے اور قدرت بے عدیل ہے ، اب جو صورت انسان کے حق میں مفید ہوگی، حق تعالی اس کی توفیق دے گا ، اس کی رہنمائی فرمائے گا ، پھر نہ سوچنے کی ضرورت ، نہ خواب میں نظر آنے کی حاجت، جو اس کے حق میں خیر ہوگا وہی ہوگا ، چاہے اس کے علم میں اس کی بھلائی آئے یا نہ آئے ، اطمینان وسکون فی الحال حاصل ہویا نہ ہو ، ہوگا وہی جو خیر ہوگا ، یہ ہے استخارہ مسنونہ کا مطلوب !اسی لئے تمام امت کے لئے تا قیامت یہ دستور العمل چھوڑا گیا ہے “۔(بصائر وعبر:ج:1، ص:363،ط:مکتبہ بنوریہ کراچی ) استخارہ کا مسنون اور صحیح طریقہ سنت کے مطابق استخارہ کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو)دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں، نیت یہ کریں کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو چیز میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔  سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو حضور صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ہے۔
استخارہ کی مسنون دعا اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ ․اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاقْدِرْہُ لِیْ ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ ․وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ․ (بخاری،ترمذی)
ترجمہ: اے الله ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیر طلب کرتا ہوں، اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں، آپ غیب کو جاننے والے ہیں، اے الله ! آپ علم رکھتے ہیں، میں علم نہیں رکھتا۔ یعنی یہ معاملہ حق میں بہتر ہے یا نہیں، اس کا علم آپ کو ہے مجھے نہیں، اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور میرے اندر قدرت نہیں، یا الله ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائے، جس کے لئے استخارہ کررہا ہے) میرے حق میں بہتر ہے، میرے دین کے لئے بھی بہتر ہے، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے، تو اس کو میرے لئے مقدر فرمادیجئے اور اس کو میرے لئے آسان فرمادیجئے اور اس میں میرے لئے برکت پیدا فرمادیجئے، اور اگر آپ کے علم ميں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ میرے حق میں بُرا ہے، میرے دین کے حق میں بُرا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں بُرا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے بُرا ہے، تو اس کام کو مجھ سے پھیردیجئے اور مجھے اس سے پھیر دیجئے، اور میرے لئے خیر مقدر فرمادیجئے جہاں بھی ہو۔ (یعنی اگریہ معاملہ میرے لئے بہتر نہیں ہے تو اس کو تو چھوڑ دیجئے اور اس کے بدلے جوکام میرے لئے بہتر ہو،اس کو مقدر فرمادیجئے،) پھر مجھے اس پر راضی بھی کردیجئے۔
دعاکرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچے تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح“ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الأمر “ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔
استخارہ کتنی بار کیا جائے؟ حضرت انس رضى الله تعالى عنه ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالی سے سات مرتبہ استخارہ کرو ، پھر اس کے بعد دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے ، یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز دل میں ڈالی جائے، اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لیے وہی بہتر ہے۔(مظاہر حق)
استخارہ کے بارے میں چند کوتاہیاں اورغلط فہمیاں:
استخارہ کس قدر آسان کام ہے، مگر اس میں بھی شیطان نے کئی پیوند لگادیے ہیں کہ دو رکعت پڑھ کر کسی سے بات کیے بغیر دائیں کروٹ پر قبلہ رو سونا ضروری ہے، ورنہ استخارہ بے فائدہ رہے گا۔ لیٹنے کے بعد اب خواب کا انتظار کرو، استخارہ کے دوران خواب نظر آئے گا اور اگر خواب میں فلاں رنگ نظر آئے تو وہ کام بہتر ہوتا ہے ، فلاں نظر آئے تو وہ بہتر نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ (ملخص از خطبات الرشید)
کسی دوسرے سے ”استخارہ کروانا“
استخارہ خود کرنا ثابت ہے، کسی اور سے استخارہ کروانا ثابت نہیں ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامور کلھا کما یعلمنا سورة من القرآن (ترمذی )
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے، جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے ۔ اگرکسی اور سے استخارہ کروانا سنت یا کوئی مستحسن عمل ہوتا تو رسول اللہﷺ کی پوری زندگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین میں سے ضرور کسی ایک صحابہ نے رسول اللہﷺ سے استخارہ کروایا ہوتا۔
استخارہ کے خود ساختہ طریقے:
لوگوں نے استخارہ کے کئی ایسے طریقے خود سے گھڑ لیے ہیں، جن کا مسنون طریقہ سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے، کوئی تکیہ کے نیچے رکھنےکا ہے، کوئی سر کے گھوم جانے کا ہے، کوئی تسبیح پر پڑھنے کا ہے، وغیرہ وغیرہ، اس میں سے کوئی طریقہ سنت سے ثابت نہیں ہے، بلکہ ان طریقوں میں تو ایک قسم کے خطرے کا اندیشہ ہے، ہم رسول اللہ کے واضح بتائے ہوئے سنت طریقہ کو چھوڑ کردوسرے طریقے اختیار کررہے ہیں۔ وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں استخارے کا ایک اور مسنون طریقہ سنت استخارے کا تفصیلی طریقہ تو وہ ہے، جس کو ماقبل میں تفصیل سے بیان کردیا گیا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں بھی ایک مختصر سا استخارہ تجویز فرمادیا تاکہ استخارے سے محرومی نہ ہوجائے اور وہ تین مختصر سی دعائیں ہیں:
اَللّٰھُمَّ خِرْ لِیْ وَاخْتَرْ لِیْ․ (کنز العمال) ترجمہ: اے اللہ !  میرے لئے آپ (صحیح راستہ) پسند کردیجئے اور میرے لئے آپ انتخاب فرما دیجئے۔
اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ وَسَدِّدْنِیْ․(صحیح مسلم) ترجمہ: اے اللہ ! میری صحیح ہدایت فرمایے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھیے۔
اَللّٰہُمَ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ․ (ترمذی) ترجمہ: اے اللہ ! جو صحیح راستہ ہے وہ میرے دل پر القا فرمادیجیے۔ ان دعاوں میں سے جو دعا یاد آجائے، اس کو اسی وقت پڑھ لے ، اور اگر عربی میں دعایاد نہ آئے تو اردو ہی میں دعا کرلی جائے کہ اے اللہ !مجھے یہ کشمکش پیش آئی ہے ،آپ مجھے صحیح راستہ دکھا دیجیے ، اگر زبان سے نہ کہہ سکیں تو دل ہی دل میں اللہ تعالی سے کہہ دیں کہ یا اللہ ! یہ مشکل اور یہ پریشانی پیش آگئی ہے ، آپ صحیح راستے پر ڈال دیجیے، جو راستہ آپ کی رضا کے مطابق ہو اور جس میں میرے لیے خیر ہو۔ (ملخص از اصلاحی خطبات:ج 10،ص:159) خلاصہ کلام: اس پوری تفصیل سے یہ ثابت ہوا کہ" استخارہ" اللہ تعالی سے خیر مانگنے اور بھلائی طلب کرنے کا مسنون ذریعہ ہے۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2720 Nov 05, 2019
istikhara ka masnoon tareeqa, The best method of Istikharah

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Azkaar & Supplications

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.