سوال:
حضرت ! کیا ایسے ہوٹل کا کاروبار کرنا، جہاں اکثر سیاحوں کا ٹھہرنا ہوتا ہو، جائز ہے؟
اگر ہوٹل کا کمرہ استعمال کرتے ہوئے اگر کوئی برائی میں ملوث ہو، تو اس کا وبال ہوٹل کے مالک پر ہو گا؟
جواب: واضح رہے کہ مکان یا دکان کرایہ پر دینے سے پہلے اس بات کا اطمینان کرلینا چاہیے کہ کرایہ دار اس جگہ کو گناہ کےکاموں کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔
اگر مالک کو پہلے سے یہ علم ہو کہ اس کی جگہ گناہ کے کام میں استعمال کی جائے گی، تو ایسے شخص کو کرائے پر جگہ دینا، گناہ کے کام میں تعاون کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہوگا اور اس کی کمائی مکروہ تحریمی ہوگی۔
تاہم اگر کرایہ پر دیتے ہوئے مالک کو یہ بات معلوم نہ ہو کہ اس کی جگہ کو غلط کام کے لیے استعمال کیا جائے گا اور کرایہ پر لینے کے بعد کرایہ دار نے اس جگہ کو غلط کام کے لیے استعمال کیا، تو مالک پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اور کرایہ اس کے لیے حلال ہوگا، البتہ معلوم ہوجانے پر اس کو کوشش کرنا چاہیے کہ جلد ایسے کرائے دار سے جگہ خالی کرالے، تاکہ وہ کسی درجہ میں گناہ میں معاون نہ سمجھا جائے اور اس کی کمائی خالص حلال رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الاسراء، الایۃ: 32)
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا o
و قولہ تعالی: (المائدۃ، الایۃ: 1)
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔۔۔۔الخ
شرح الوقایہ: (کتاب الاجارات، 293/3)
وصح استئجار دار او دکان بلا ذکر مایعمل فیہ فان العمل المتعارف فیھما سکنی فینصرف الیہ۔
الفقہ الإسلامي و أدلتہ: (3817/5- 3818، ط: رشیدیہ)
لا یجوز الاستئجار علی المعاصي کاستئجار الإنسان للعب واللہو المحرم وتعلیم السحر والشعر المحرم وانتساخ کتب البدع المحرمۃ وکاستئجار المغنیۃ والنائحۃ للغناء والنوح لأنہ استئجار علی معصیۃ والمعصیۃ لاتستحق بالعقد ۔فالقاعدۃ الفقہیۃ إذن الاستئجار علی المعاصي لا یجوز ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی