عنوان: شادی میں دیئے گئے تحائف کو واپس مانگنے کا حکم(2421-No)

سوال: لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے شادی اور منگنی میں لڑکے کے گھر والوں کو کچھ گفٹ میں سونے کی کوئی چیز دی گئی ہو، اور لڑکے کی طرف سے منگنی اور شادی میں کچھ سونے کی کوئی چیز دی گئی ہو، تو کیا طلاق ہونے کا بعد کیا لڑکی کے گھر والے یا لڑکے کے گھر والے واپسی کا تقاضہ کر سکتے ہیں؟
۱۱ سال نکاح رہا ۔۔
واضح بات :- شادی کے وقت ایسا کوئی بھی معاہدہ طے نہیں ہوا تھا کہ خدا نخواستہ اگر شادی ختم ہونے کی صورت میں یہ سارے گفٹ جو لڑکی والوں کو طرف سے یا لڑکے والوں کی طرف سے دیے گئے ہے، یہ ایک دوسرے کو واپس کرنا ہونگے، ایسی کوئی بھی بات طے نہیں کی گئی تھی۔
بلکہ جو بھی گفٹ لڑکی والوں نے دیے اور جو بھی گفٹ لڑکے والو نے دیے، وہ اپنی مرضی سے خوشی سے دیے تھے، اس گفٹ کی لین دین میں دونوں فریقین میں کسی نے کوئی تقاضہ نہیں کیا تھا، جو دیا اپنی مرضی اور خوشی سے گفٹ دیا گیا اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق دیا گیا، رشتے داروں کے سامنے ۔
اس ساری تفصیل کے بعد مفتیان کرام قرآن حدیث کی روشنی میں کیا فتویٰ دیتے ہیں؟

جواب: واضح رہے کہ اگر لڑکی والوں نے مذکورہ چیزیں لڑکے کو ملکیت کے طور پر دی ہیں، تو اب یہ لڑکے کی ملکیت ہے اور واپس لینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر مذکورہ تحائف دیتے وقت کوئی نیت نہیں تھی یا کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی، تو وہاں برادری کے عرف کا اعتبار کیا جائے گا، اگر ان کے عرف میں تحائف ملکیت کے طور پر دیئے جاتے ہوں، تو واپس لینا جائز نہیں ہے اور اگران کے عرف میں یہ تحائف صرف استعمال کرنے کے لئے دئے جاتے ہوں، تو ان کا واپس لینا جائز ہے، البتہ جہیز عورت کی ہی ملکیت ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2589)
عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:ليس لنا مثل السوء، الذي يعود في هبته كالكلب يرجع في قيئه۔

سنن الترمذی: (باب ما جاء لا وصیۃ لوارث، رقم الحدیث: 2120)
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ....قَالَ:‏‏‏‏الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ

رد المحتار: (153/3)
ومن ذلك ما يبعثه إليه قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابا ونحوها صبيحة العرس أيضا۔

الھندیۃ: (327/1)
وإذا بعث الزوج إلی أہل زوجتہ أشیاء عند زفافہا منہا دیباج، فلما زفت إلیہ أراد أن یسترد من المرأۃ الدیباج لیس لہ ذلک، إذا بعث إلیہا علی جہۃ التملیک - إلی قولہ - وقال في الواقعات: إن کان العرف ظاہراً بمثلہ في الجہاز کما في دیارنا، فالقول قول الزوج، وإن کان مشترکا، فالقول قول الأب

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1827 Nov 05, 2019
shadi me / mein diye gai / gae tahaef / gifts ko wapis mangne / mangney ka hokom / hokum, Ruling / Order to return the gifts given at the wedding

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.