سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میرا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری مسجد کا کام شروع ہے، ہمارا ٹھیکیدار بھاگ گیا، اس کی شیٹرنگ کی لکڑی وغیرہ ادھر ہی رہ گئی ہے، ہمارے کچھ پیسے بھی لے کے گیا، ہم نے وہ سامان پیسوں کے خاطر روک لیا تھا، بعد میں ہم نے فون کر کے بتایا کہ آجاؤ اپنا سامان لے جاؤ، ہمیں آپ کے سامان کی ضرورت نہیں ہے، وہ نہیں آرہا اور وہ کہتا ہے کہ آپ ان سے اپنا کام لے لینا۔ ابھی یہ پوچھنا ہے کہ ہم تو کام کررہے ہیں، کیا ان کی شیٹرنگ کا سامان استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ کام ختم ہونے کے بعد پھر بھی نہیں آیا، تو ہم ان سامان کو رکھ یا بیج سکتے ہیں؟
جواب: صورت مسئولہ میں مسجد کی انتظاميہ اپنی رقم کے بقدر ٹھیکدار کی شیٹرنگ استعمال کرسکتی ہے یعنی جتنی رقم ٹھیکدار نے لی ہے، اس رقم کے حساب سے عرف میں جتنی شیٹرنگ لگتی ہے، اسی قدر شیٹرنگ استعمال کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الحظر و الاباحة، 422/6، ط: دار الفکر)
فمن تمكن من دفعه عن نفسه فحسن، وإن أعطى فليعط من عجز. ليس لذي الحق أن يأخذ غير جنس حقه وجوزه الشافعي وهو الأوسع.
(قوله فمن تمكن إلخ) أطلقه فشمل ما لو تحمل غيره نائبته. وفي القنية توجه على جماعة جباية بغير حق فلبعضهم دفعه عن نفسه إذا لم يحمل حصته على الباقين، وإلا فالأولى أن لا يدفعها عن نفسه قال - رضي الله عنه -: وفيه إشكال لأن إعطاءه إعانة للظالم على ظلمه ثم ذكر السرخسي مشاركة جرير وولده مع سائر الناس في دفع النائبة بعد الدفع عنه ثم قال: هذا كان في ذلك الزمن، لأنه إعانة على الطاعة وأكثر النوائب في زماننا بطريق الظلم فمن تمكن من دفعه عن نفسه فهو خير له اه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی