سوال:
حضرت ! کیا ہوٹل سرائے کا نعم البدل ہیں؟ اور میں نے سنا تھا کہ اسلام میں سراؤوں کو نا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے، کیا اس بات میں کوئی حقیقت ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ہوٹل اور ریسٹورنٹ وغیرہ سرائے ہی کی نئی شکلیں اور نئے نام ہیں اور ان میں سے ہر ایک سے حاصل کئے جانے والے اصلی مقاصد بھی تقریبا ایک ہی ہیں، لہذا ان میں سے کسی ایک کو شرعی حوالے سے دوسرے کا نعم البدل کہنا بے معنی ہے اور اسلام کی نظر میں عوام کی سہولت اور رفاہ ِ عامہ کی ترقی کے لیے بعض مقامات پر سرائے تعمیر کرنا کوئی ناپسندیدہ عمل بھی نہیں ہے، بلکہ اسلام کی نظر میں خیر کے کاموں میں سے یہ بھی ایک خیر کا کام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المبسوط للسرخسي: (كتاب الوقف، 29/12، ط: دار المعرفة)
ثم للناس حاجة إلى ما يرجع إلى مصالح معاشهم ومعادهم. فإذا جاز هذا النوع من الإخراج والحبس لمصلحة المعاد. فكذلك لمصلحة المعاش كبناء الخانات والرباطات واتخاذ المقابر۔
شرح مختصر الطحاوي للجصاص: (كتاب المأذون له، 489/8، ط: دار البشائر الإسلامية)
ومنها: الخانات التي في الأسواق، يجوز للإنسان دخولها بغير استئذان؛ لأن حصولها على هذه الحال، كالإذن منه له في دخولها.
وقد روي في تأويل قول الله تعالى: {ليس عليكم جناح أن تدخلوا بيوتا غير مسكونة فيها متاع لكم}: أن المراد به الخانات.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی