سوال:
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کا قبلہ حضرت ابراھیم علیہ سلام کے زمانے میں کعبہ تھا، پھر بیت المقدس کب اور کیوں ہوا؟ پھر بیت المقدس کے بعد کعبہ کیوں ہوا؟ اب مسلمانوں کے لیے بیت المقدس کی کیا فضیلت اور اہمیت ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کرنوح علیہ السلام تک سب کا قبلہ یہی بیت اللہ تھا، طوفانِ نوح میں پوری دنیا ڈوبنے سے تباہ ہوگئی جس کی وجہ سے بیت اللہ کی عمارت بھی منہدم ہوگئی، اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے دوبارہ بحکمِ خداوندی بیت اللہ کی تعمیر کی اور یہی ان کا اور ان کی امت کا قبلہ رہا اوراس کے بعد انبیائےبنی اسرائیل کے لیےبیت المقدس ہی کو قبلہ قرار دیا گیا ۔
جناب رسول اللہ ﷺ کس جانب منہ کرکے نماز پڑھتے تھے؟ آیا شروع سے ہی بیت ا لمقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے یا بیت اللہ کی طرف؟
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ نماز فرض ہونےکے بعد پہلے آپ ﷺ کا قبلہ بیت المقدس تھا جو ہجرتِ مدینہ کے بعد بھی سولہ سترہ مہینہ تک باقی رہا، البتہ جناب رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں حجرِ اسود اور رکن یمانی کے درمیان نماز پڑھتے تھے، تاکہ بیت اللہ بھی سامنے رہے اور بیت المقدس کا بھی استقبال ہوجائے، مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد یہ ممکن نہ رہا ،اس لیے بیت اللہ کو قبلہ بنانے کے احکام نازل ہوئے۔
جبکہ دوسرے حضرات کی رائے یہ ہے کہ نماز فرض ہونے کے بعد مکہ مکرمہ میں بھی مسلمانوں کا ابتدائی قبلہ بیت اللہ ہی تھا،کیونكہ حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کا قبلہ بھی بیت اللہ ہی رہا تھا اور آپ ﷺ جب تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے بیت اللہ ہی کی طرف نماز پڑھتے رہے، پھر ہجرت کے بعد آپ کا قبلہ بیت المقدس قرار دے دیا گیا اور مدینہ منورہ میں سولہ سترہ مہینے آپ نے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی، اس کے بعد پھر آپ کا جو پہلا قبلہ تھا یعنی بیت اللہ اسی کی طرف نماز میں توجہ کرنے کا حکم آگیا۔علامہ ابن عبدالبر(م 463 ھ)نے اس قول کو اصح قراردیا ہے اور علامہ قرطبی (م671 ھ) نے بحوالہ ابو عمرو اسی قول کو اصح القولین قرار دیا ہے ۔
بیت المقدس کوقبلہ قراردینے کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو آپ کو قبائلِ یہود سے سابقہ پڑا،اس وجہ سے آپ ﷺنے ان کو مانوس کرنے کے لیے اللہ تعالی ٰ کے حکم سے ان ہی کا قبلہ اختیار کرلیا، مگر پھر تجربہ سے ثابت ہوا کہ یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آنے والے نہیں تو پھر آپ کو اپنے اصلی قبلہ یعنی بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا، جو آپ کو اپنے آباء حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کا قبلہ ہونے کی وجہ سے طبعی طورپرمحبوب تھا۔
جن حضرات نے پہلا قول اختیار کیا ہے، ان کے نزدیک حکمت یہ تھی کہ مکہ مکرمہ میں تو مشرکین سے امتیاز اور ان سے مخالفت کا اظہار کرنا تھا، اس لیے ان کا قبلہ چھوڑ کر بیت المقدس کو قبلہ بنادیا گیا، پھر ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں یہود و نصاریٰ سے امتیاز اور ان کی مخالفت کا اظہار مقصود ہوا تو ان کا قبلہ بدل کر بیت اللہ کو قبلہ بنادیا گیا ۔
بیت المقدس کے فضائل:
۱)مسلمانوں کےلیے فضیلت یہ ہےکہ مسجد اقصی مسلمانوں کا کچھ عرصے کے لیے قبلہ رہا ہے۔
۲) جس طرح مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی فضیلت ہے اسی طرح مسجد اقصی میں بھی نماز پڑھنے کی فضیلت آئی ہے ، حدیث شریف میں آ تا ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے یہ گفتگو کررہے تھے کہ مسجد نبوی افضل ہے یا بیت المقدس؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:میری اس مسجد میں ایک نماز بیت المقدس میں پڑھی گئی چار نمازوں کے برابر ہے،ہاں وہ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے اور وہ وقت قریب ہے کہ ایک مؤمن کے لیے اتنی جگہ بھی ملنا مشکل ہوگی کہ وہ وہاں سے بیت المقدس کو دیکھ لے، اگر صرف اتنی جگہ بھی مل گئی تو وہ اس کے نزدیک دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگا‘‘ ، اس حدیث کی روشنی میں مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کا ثواب ڈھائی سو نمازوں کے برابر بنتا ہے، کیونکہ مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ہزار نمازوں سے افضل ہے۔
۳) بیت المقدس وہ جگہ ہے جہاں سے آپ ﷺ کا سفرِ معراج شروع ہوا تھا اور جہاں آپ ﷺ نے انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی تھی۔
۴) مسجد اقصی ان تین مساجد میں سے ایک ہےجس کی طرف عبادت کی نیت سے سفر کرکے جانا جائز ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ (یعنی سفر نہ کیا جائے) ایک مسجد الحرام، دوسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد (مسجد نبوی) اور تیسری مسجد الاقصیٰ یعنی بیت المقدس۔
۵) بيت المقدس ان چار جگہوں (مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ اور کوہ طور) ميں سے ہے، جہاں دجال داخل نہیں ہوسکتا ہے۔
احادیث مبارکہ میں اور بھی فضائل بیان کیے گئے ہیں، جن سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بیت المقد س سے مسلمانوں کا ایمانی اور مذہبی رشتہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شفاء الغرام للفاسي: (125/1، ط: دار الكتب العلمية)
لا شك أن الكعبة المعظمة بنيت مرات، وقد اختلف في عدد بنائها، وتحصل من مجموع ما قيل في ذلك أنها بنيت عشر مرات منها: بناء الملائكة عليهم السلام.ومنها: بناء آدم عليه السلام. ۔۔۔فأما بناء الملائكة للكعبة: فذكره الأزرقي في تاريخه وذكر أن ذلك قبل خلق آدم عليه السلام واستدل على ذلك بخبر رواه عن زين العابدين، وذكر من حديث ابن عباس رضي الله عنهما أيضا ما يدل لبناء الملائكة للكعبة.وذكر النووي في "تهذيب الأسماء واللغات" بناء الملائكة للكعبة، وعد ذلك أول بنائها.
تفسیر القرطبي: (150/2، ط: دار الكتب المصرية)
واختلفوا أيضا حين فرضت عليه الصلاة أولا بمكة، هل كانت إلى بيت المقدس أو إلى مكة، على قولين، فقالت طائفة: إلى بيت المقدس وبالمدينة سبعة عشر شهرا، ثم صرفه الله تعالى إلى الكعبة، قاله ابن عباس. وقال آخرون: أول ما افترضت الصلاة عليه إلى الكعبة، ولم يزل يصلي إليها طول مقامه بمكة على ما كانت عليه صلاة إبراهيم وإسماعيل، فلما قدم المدينة صلى إلى بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا، على الخلاف، ثم صرفه الله إلى الكعبة. قال أبو عمر: وهذا أصح القولين عندي. قال غيره: وذلك أن النبي صلى الله عليه وسلم لما قدم المدينة أراد أن يستألف اليهود فتوجه [إلى] قبلتهم ليكون ذلك أدعى لهم، فلما تبين عنادهم وأيس منهم أحب أن يحول إلى الكعبة فكان ينظر إلى السماء، وكانت محبته إلى الكعبة لأنها قبلة إبراهيم، عن ابن عباس.
تفسير ابن كثير: (453/1، ط: دار طيبة)
وحاصل الأمر أنه قد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر باستقبال الصخرة من بيت المقدس، فكان بمكة يصلي بين الركنين، فتكون بين يديه الكعبة وهو مستقبل صخرة بيت المقدس، فلما هاجر إلى المدينة تعذر الجمع بينهما، فأمره الله بالتوجه إلى بيت المقدس، قاله ابن عباس والجمهور.
الإستذكار لإبن عبد البر: (19/1، ط: دار الكتب العلمية)
وقد مضى في ((التمهيد)) أيضا اختلافهم فيما كان النبي صلى الله عليه وسلم يستقبل في صلاته وهو بمكة وذلك على قولين عن السلف مرويين
أحدهما أنه كان يستقبل بمكة الكعبة لصلاته على ما كانت عليه صلاة إبراهيم وإسماعيل فلما قدم المدينة استقبل بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا ثم وجهه الله إلى الكعبةوهذا أصح القولين عندي
تفسیر الکبیر للرازي: (83/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
وخامسها: أن الله تعالى بين ذلك في قوله: وما جعلنا القبلة التي كنت عليها إلا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبيه [البقرة: 143] فأمرهم الله تعالى حين كانوا بمكة أن يتوجهوا إلى بيت المقدس ليتميزوا عن المشركين، فلما هاجروا إلى المدينة وبها اليهود، أمروا بالتوجه إلى الكعبة ليتميزوا عن اليهود.
المعجم الأوسط: (رقم الحدیث: 6983، 103/7، ط: دار الحرمين)
عن أبي ذر قال: تذاكرنا ونحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، أيما أفضل، مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم أو بيت المقدس؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلاة في مسجدي هذا أفضل من أربع صلوات فيه، ولنعم المصلى هو، وليوشكن أن يكون للرجل مثل سية قوسه من الأرض، حيث يرى منه بيت المقدس خير له من الدنيا جميعا»
هذا الحديث أخرجه الحاكم في’’ مستدركه ‘‘(4/554)( 8553 )وقال: هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه واوفقه الذهبي
أورده الهيثمي (7/4)( 5873)وقال: رواه الطبراني في الأوسط، ورجاله رجال الصحيح.
صحیح مسلم: (رقم الحديث: 172، 156/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لقد رأيتني في الحجر وقريش تسألني عن مسراي، فسألتني عن أشياء من بيت المقدس لم أثبتها، فكربت كربة ما كربت مثله قط»، قال: " فرفعه الله لي أنظر إليه، ما يسألوني عن شيء إلا أنبأتهم به، وقد رأيتني في جماعة من الأنبياء، فإذا موسى قائم يصلي، فإذا رجل ضرب، جعد كأنه من رجال شنوءة، وإذا عيسى ابن مريم عليه السلام قائم يصلي، أقرب الناس به شبها عروة بن مسعود الثقفي، وإذا إبراهيم عليه السلام قائم يصلي، أشبه الناس به صاحبكم - يعني نفسه - فحانت الصلاة فأممتهم، فلما فرغت من الصلاة قال قائل: يا محمد، هذا مالك صاحب النار، فسلم عليه، فالتفت إليه، فبدأني بالسلام "
صحیح البخاري: (رقم الحديث: 1188، 60/2، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجد الرسول صلى الله عليه وسلم، ومسجد الأقصى "
مسند أحمد: (رقم الحديث: 23683، 88/39، ط: مؤسسة الرسالة)
عن مجاهد، قال: كان جنادة بن أبي أمية أميرا علينا في البحر ست سنين، فخطبنا ذات يوم،۔۔۔۔ فقال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " أنذركم المسيح الدجال۔۔۔ يبلغ سلطانه كل منهل، لا يأتي أربعة مساجد " فذكر المسجد الحرام، والمسجد الأقصى، والطور
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی