سوال:
السلام علیکم ، مفتی صاحب ! ایک حدیث سنی تھی، جس کا مفہوم ہے کہ جس شخص نے دین کا ایک باب سکیھا، گویا اس نے 80 سال کی نفلی عبادت کا ثواب حاصل کرلیا.
حضرت معلوم یہ کرنا ہے کہ دین کے ایک باب سے کیا مراد ہے ؟ کیا یہ جو آپ کے پاس مسائل آتے ہیں، جس کا آپ جواب دیتے ہیں، یہ بھی دین کا ایک باب ہوتا ہے یا کسی حدیث کے متعلق مکمل علم کو دین کا ایک باب کہتے ہیں ؟ ذرا رہنمائی فرما دیں. جزاک اللہ
جواب: سوال میں ذکر کی گئی علم کی فضیلت سنن ابن ماجہ کی حدیث میں ہے:
"حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ غَالِبٍ الْعَبَّادَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الْبَحْرَانِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ، لَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ مِائَةَ رَكْعَةٍ، وَلَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ، عُمِلَ بِهِ أَوْ لَمْ يُعْمَلْ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ أَلْفَ رَكْعَةٍ".
(سنن ابن ماجة:٣٠)
ترجمہ:
"سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا:
’’ اے ابو ذر! اگر تو صبح کو( علم سیکھنے کے لئے) نکلے اور اللہ کی کتاب کی ایک آیت سیکھ لے، یہ تیرے لئے سو رکعت (نفل) نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ اور اگر تو صبح نکل کر علم کا ایک باب سیکھ لے، خواہ اس پر عمل کر سکے یا نہ کر سکے، یہ تیرے لئے ہزار رکعت (نفل) نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
حدیث مبارک میں علم کا ایک باب سیکھنے سے مراد دین کے کسی بھی شعبے کے مسائل سیکھنا، مثلا: وضو کے مسائل، نماز کے مسائل، روزے کے مسائل، اعتکاف کے مسائل، زکوٰۃ کے مسائل، حج و عمرہ کے مسائل، نکاح و طلاق کے مسائل، خرید و فروخت کے مسائل، قرض کے مسائل وغیرہ، ان میں سے کسی بھی باب کے مسائل سیکھنے پر وہ فضیلت حاصل ہوگی، جو مذکورہ بالا حدیث میں آئی ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی