عنوان: حضور اکرم ﷺ کی پیدائش اور وفات کی تاریخ(2474-No)

سوال: نبی کریم ﷺ کی ولادت اور وفات کے دن اور تاریخ کے بارے میں صحیح اور محقق قول کیا ہے؟

جواب: مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسولﷺ سے پیر کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: "یہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا"۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر:1162)
البتہ ولادت کے سال، مہینے اور تاریخ کے بارے میں اقوال مختلف ہیں، چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ فرماتےہیں:اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولِ اکرمﷺ عام الفیل (یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے بیت اللہ شریف پر حملہ کیا) میں پیدا ہوئے،اسی طرح جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپﷺ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے، اور علامہ ابن جوزی نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے، لیکن یہ کہ آپﷺ اس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں، کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا ہے اور بہت سے محققین نے بارہ کی بجائے نو یا آٹھ ربیع الاول کو یومِ ولادت ثابت کیا ہے،جن میں سے چند محقق سیرت نگاروں کے اقوال مندرجہ ذیل ہیں:
۱) قاضی سلیمان منصور پوری"رحمة للعالمین" میں لکھتے ہیں: تاریخِ ولادت باسعادت میں موٴرخین نے بہت اختلاف کیا ہے، طبری اور ابن خلدون نے ۱۲ ربیع الاوّل لکھی ہے اور ابوالفداء نے۱۰ربیع الاوّل لکھی ہے، بعض نے ۸ربیع الاوّل اور مشہور یہی روایت ہے، مگر سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ولادتِ شریفہ دوشنبے کے دن ہوئی، چونکہ دو شنبہ کا دن ۹ربیع الاوّل کے سوا کسی اور تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے ۹ربیع الاول ہی صحیح ہے۔
٢) تاریخ دول العرب والاسلام میں "طلعت بک عرب" نے بھی ۹ تاریخ ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔ چنانچہ فلکیات کے مشہور مصری عالم اور محقق محمود پاشا کی تحقیق بھی یہی ہے کہ آپﷺ کی ولادتِ شریفہ دوشنبہ کے دن، ۹ربیع الاوّل کو واقعہٴ فیل کے پہلے سال ہوئی۔ (رحمة للعالمین، قاضی سلیمان منصورپوری:69/1، ط: مرکزالحرمین الاسلامی)
٣) "الرحیق المختوم" کے مصنف مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کے بقول ''رسول اللہﷺ مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر ۹ ربیع الاول عام الفیل یوم دو شنبہ (سوموار) کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔ (ص:83،ط: المکتبة السلفیة لاہور)
٤) برصغیر کے معروف مؤرخین مثلاً علامہ شبلی نعمانی، اکبر شاہ نجیب آبادی وغیرہ نے بھی ۹ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو از روئے تحقیق جدید صحیح ترین تاریخ ولادت قرار دیا ہے۔(سیرت النبی،شبلی نعمانی :137/1،ط:مکتبہ اسلامیہ لاہور /تاریخ اسلام ، اکبر شاہ :87/1)
٥) "سیرت مصطفے ﷺ " میں مولانا ادریس کاندھلویؒ صاحب نے لکھا ہے کہ جمہور محدثین اور مورخین کے نزدیک راجح اور مختار قول یہ ہے کہ حضورﷺ 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ عبداللہ بن عباس اور جبیر بن مطعم سے بھی یہی منقول ہے اور اسی قول کو علامہ قطب الدین نے اختیار کیا ہے۔ (57/1، ط: دارالناشر)
٦) "ہادیٔ اعظم " میں حضرت حافظ سید فضل الرحمن صاحب لکھتے ہیں: خلاصہ یہ کہ راجح تر ین قول یہی ہے کہ آں حضرت ﷺکی ولادت با سعادت عام الفیل میں واقعہ فیل کے پچاس روز بعد ۸ رمضان المبار ک ا، میلادی قمری) ۸ ربیع الاول ۱ ،میلادی قمریہ شمسی / ۴ نومبر (۵۷۹) کور بیع الاول کو پیر کے روز صبح صادق کے وقت محلہ سوق اللیل، مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ (ہادیٔ اعظم:208/1،زوارا كيڈمي)
تاریخ ِولادت میں راجح قول :
بہرحال حضورِ اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کے حوالے سے مؤرخین اور سیرت نگاروں کی آراء مختلف ہیں، مشہور یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کو پیدائش ہوئی، لیکن راجح قول کے مطابق حضور اکرمﷺ کی پیدائش 8 ربیع الاول بمطابق 20 یا 22 اپریل 571 عیسوی کو ہوئی۔
جناب رسول اللہ ﷺکی تاریخ ِ وفات:
اس بارے میں تقریباً جمہور متفق ہیں کہ آپ ﷺ کی وفات ربیع الاول میں پیر کے روزہوئی، مگر وفات کے وقت اور تاریخ کے بارے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے، اس بارے میں تین اقوال ہیں:
۱)ابن اسحاق،واقدی،اور ابن سعد ، علامہ ابن جریر طبریؒ اور اکثر مؤرخین اور سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ ۱۲ ربیع الاول رسولِ اکرمﷺ کا یوم وفات ہے۔
۲) موسی بن عقبہ اور خوازمی کے نزدیک یکم ربیع الاول کو وفات ہوئی۔
۳) امام کلبی،زہری ،خلیفہ بن خیاط ،فضل بن دکین کے نزدیک دو ربیع الاول کو وفات ہوئی ۔علامہ سہیلی،علامہ ابن حجر عسقلانی نے اسی کو راجح قرار دیا۔
حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ نے "سیرت خاتم الانبیاء " کے حاشیہ میں لکھاہے: تاریخ وفات میں مشہور یہ ہے کہ ۱۲/ربیع الاول کو واقع ہوئی اور یہی جمہور مورخین لکھتے چلے آئے ہیں؛لیکن حساب سے کسی طرح بھی یہ تاریخ وفات نہیں ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ یہ بھی متفق علیہ اور یقینی امر ہے کہ وفات دوشنبہ کو ہوئی اور یہ بھی یقینی ہے کہ آپ کا حج۹/ ذی الحجہ روزجمعہ کو ہوا،ان دونوں باتوں کے ملانے سے ۱۲/ربیع الاول بروز دوشنبہ میں نہیں پڑتی؛ اسی لیے حافظ ابن حجرنے شرح صحیح بخاری میں طویل بحث کے بعد اس کو صحیح قرار دیاہے کہ تاریخ وفات دوسری ربیع الاوّل ہے، کتابت کی غلطی سے( ۲ کا ۱۲) اور عربی عبارت میں ”ثاني شهر ربيع الأول" کا "ثاني عشر ربيع الأول" بن گیا۔ حافظ مغلطائ نے بھی دوسری تاریخ کو ترجیح دی ہے۔ (سیرت خاتم الانبیاء:110،ط:مكتبة البشرى)
تاریخ ِ وفات میں راجح قول:
راجح قول کےمطابق جناب رسول اللہ ﷺ کی وفات دو ربیع الاول کو ہوئی۔
حضوراکرم ﷺ کی تاریخ ولادت میں اختلاف کیوں؟
حضوراکرم ﷺ کی تاریخ ولادت میں اختلاف کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں: (۱) تاریخی روایات میں تعارض پایا جاتا ہے۔ (۲) قمری اور شمسی سال میں اختلاف کی وجہ سے۔(۳) مشرکین عرب تاریخ میں ردو بدل کرکے مہینوں کو آگے پیچھے کردیا کرتے تھے، جس کو قرآن کریم نے یوں رد کیا ہے۔
ترجمہ: "اور یہ نسیئ (یعنی مہینوں کو آگے پیچھے کردینا) تو کفر میں ایک مزید اضافہ ہے جس کے ذریعے کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے"۔(سورہ توبہ، آیت نمبر: 37)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

البدایة والنھایة: (260/2، ط: دار الفکر، بیروت)
وهكذا روي من غير هذا الوجه عن ابن عباس أنه ولد يوم الاثنين. وهذا ما لا خلاف فيه أنه ولد صلى الله عليه وسلم يوم الاثنين.۔۔۔۔ثم الجمهور على أن ذلك كان في شهر ربيع الأول فقيل لليلتين خلتا منه قاله ابن عبد البر في الاستيعاب ورواه الواقدي عن أبي معشر نجيح بن عبد الرحمن المدني.
وقيل لثمان خلون منه حكاه الحميدي عن ابن حزم. ورواه مالك وعقيل ويونس بن يزيد وغيرهم عن الزهري عن محمد بن جبير بن مطعم ونقل ابن عبد البر عن أصحاب التاريخ أنهم صححوه وقطع به الحافظ الكبير محمد بن موسى الخوارزمي ورجحه الحافظ أبو الخطاب بن دحية في كتابه التنوير في مولد البشير النذير وقيل لعشر خلون منه نقله ابن دحية في كتابه ورواه ابن عساكر عن أبي جعفر الباقر ورواه مجالد عن الشعبي كما مر. وقيل لثنتي عشرة خلت منه نص عليه ابن إسحاق ورواه ابن أبي شيبة في مصنفه عن عفان عن سعيد بن مينا عن جابر وابن عباس أنهما قالا: ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل يوم الاثنين الثامن عشر من شهر ربيع الأول وفيه بعث وفيه عرج به إلى السماء وفيه هاجر وفيه مات. وهذا هو المشهور عند الجمهور والله أعلم. وقيل لسبعة عشر خلت منه كما نقله ابن دحية عن بعض الشيعة. وقيل لثمان بقين منه نقله ابن دحية۔

فتح الباري لابن حجر العسقلاني: (129/8، ط: دار المعرفة)
وكانت وفاته يوم الاثنين بلا خلاف من ربيع الأول وكاد يكون إجماعا لكن في حديث بن مسعود عند البزار في حادي عشر رمضان ثم عند بن إسحاق والجمهور أنها في الثاني عشر منه وعند موسى بن عقبة والليث والخوارزمي وبن زبر مات لهلال ربيع الأول وعند أبي مخنف والكلبي في ثانيه ورجحه السهيلي۔۔۔ فالمعتمد ما قال أبو مخنف وكأن سبب غلط غيره أنهم قالوا مات في ثاني شهر ربيع الأول فتغيرت فصارت ثاني عشر واستمر الوهم بذلك يتبع بعضهم بعضا من غير تأمل والله أعلم

سبل الهدي والرشاد: (306/12، ط: دار الكتب العلمية)
قال السّهيلي وابن كثير والحافظ: لا خلاف أنه- صلى الله عليه وسلم- توفي يوم الاثنين في ربيع الأول.قال: ابن عقبة حين زاغت الشمس.قال في المنهل: والأكثر على أنّه حين اشتدّ الضّحى.قال الأكثر في الثاني عشر منه وعند ابن عقبة، والليث والخوارزمي من هلال ربيع الأول.وعند أبي مخنف والكلبي في ثانيه، وجزم به سليمان بن طرخان في «مغازيه» ورواه ابن سعد عن محمد بن قيس، ورواه ابن عساكر عن سعيد بن إبراهيم عن الزهري وعن أبي نعيم الفضل بن دكين ورجحه السهيلي.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 9016 Nov 11, 2019
huzoor s.a.w ki peedaish or / aur waqat ki tareekh, The date of birth and death of the Holy Prophet

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.