سوال:
1) ایک متوفیٰ خاتون طلاق کے بغیر اپنے شوہر سے لا تعلق رہی، متوفیٰ خاتون کی اولاد نہیں تھی، متوفی خاتون اپنے ایک بھائی کے ساتھ زیادہ رہتی تھی لیکن وقتاً فوقتاً اپنے سب بھائیوں کے گھروں میں کچھ کچھ وقت بھی گزارتی تھی تو اب مختلف بھائیوں میں ولی کون ہوگا؟
2) متوفی خاتون نے اپنی زندگی میں مسجد کا دروازہ لگوانے کا مسجد انتظامیہ سے وعدہ کیا تھا اور ادائیگی کا وقت بھی مقرر کردیا تھا تو کیا یہ میت پر قرض ہے؟ اس کو میت کے قرض سے ادا کیا جائے گا یا وصیت کے احکام کے مطابق اس کو تقسیم ہوگا؟
3) متوفی خاتون کے اپنے بھانجے کے ساتھ اچھے مراسم تھے، اسی بھانجے کے پاس ان کی کچھ رقم موجود تھی اور ان کو اپنی زندگی میں تقریباً کلی مالی معاملات میں تصرف کا ذمہ دار بنایا تھا، جو بھانجے کے پاس موجود ہے اور جو رقم دیگر احباب کے پاس ہے تو "ترکہ"کی تقسیم کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ جبکہ بھائی بھی حیات ہے لیکن "اعتماد" نیک دلی کی وجہ سے بھانجے پر زیادہ تھا۔
اگر یہ تقسیم کا معاملہ بھائیوں کے سپرد کر کے بھانجے والی رقم بھی ان میں سے کسی بھائی کے حوالے کی جائے تو بھائیوں کے مابین خاندانی طور پر کچھ تلخی ہو سکتی ہے، جبکہ بھانجے کو متوفی نے اپنی زندگی میں حکماً کہا تھا کہ میرے سب معاملات آپ دیکھیں گے اور اپنے بھائی کو بھی کہا تھا کہ آپ نے مسجد کے دروازے کی ادائیگی بھانجے کی معرفت سے کرنی ہے تو اس صورت حال میں معاملات میں تصرف کا حقدار کون ہوگا؟ اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔
جواب: 1) ولی شرعًا عصبہ رشتہ دار ہوتے ہیں، لہٰذا اگر مرحومہ کا والد حیات ہو تو وہ اس کا ولی ہوگا، اگر والد حیات نہ ہو تو اس کے بھائی ولی ہوں گے، اور سارے بھائی چونکہ قرابت میں برابر ہیں اس لیے جنازہ اور تدفین وغیرہ معاملات میں سب اس کے اولیاء ہیں، نیز واضح رہے کہ چونکہ مرحومہ کو شوہر سے چونکہ طلاق نہیں ہوئی تھی اس لیے شوہر وراثت میں شریک ہوگا، البتہ ولی نہ ہوگا۔
2) اگر مرحومہ نے مسجد کے دروازے کے لیے اپنے ورثاء کو وصیت کردی تھی جیسا کہ سوال نمبر 3 کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے، تو اس پر وصیت کے احکام جاری ہوں گے، اور اگر باقاعدہ اس کی وصیت نہیں کی تھی تو تمام عاقل بالغ ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہوگا، اگر سب ورثاء عاقل بالغ ہوں اور خوشی سے اجازت دیدیں تو اس کی وراثت سے مسجد کا دروازہ لے کر دیا جاسکتا ہے۔
3) چونکہ مرحومہ نے اپنے معاملات کے لیے اپنے بھانجے کو ہی نامزد کردیا تھا، اور یہ کہہ دیا تھا کہ "میرے سب معاملات آپ دیکھیں گے"، تو اگر ان کی مراد موت کے بعد کے معاملات تھے تو اس صورت میں مذکورہ بھانجا ان کا "وصی" ہے، وصی وہ ہوتا ہے جسے میت نے موت سے قبل اپنے مال کی حفاظت اور معاملات کی انجام دہی کے لیے نامزد کیا ہو، لہٰذا مرحومہ کے مالی معاملات وغیرہ ان کا مذکورہ بھانجا ہی شریعت کے مطابق انجام دینے کا پابند ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية في شرح بداية المبتدي: (1/ 90، ط: دار احياء التراث العربي)
«قال: " ثم الولي والأولياء على الترتيب المذكور في النكاح فإن صلى غير الولي والسلطان أعاد الولي " يعني إن شاء لما ذكرنا أن الحق للأولياء»
الهندية: (1/ 163، ط: دار الفکر)
«والأولياء على ترتيب العصبات الأقرب فالأقرب إلا الأب فإنه يقدم على الابن، كذا في خزانة المفتين»
الهندية: (6/ 94، ط: دار الفکر)
«وما يجوز من الوصية وما لا يجوز: " رجل قال لغيره: أنت وكيلي بعد موتي يكون وصيا، ولو قال: أنت وصيي في حياتي يكون وكيلا، كذا في الظهيرية»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی