resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: عورت کا قانونی مجبوری کی وجہ سے عدّت میکہ میں گزارنے کا حکم (24822-No)

سوال:
مفتی صاحب! ایک مسئلے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔ ہم لوگ سعودیہ میں رہتے ہیں، میرا بیٹا اپنی بیوی کو شرعی طریقے کے مطابق طلاق دینا چاہتا ہے، اس لیے لڑکی کو یہہں رہتے ہوئے ایک طلاق دے رہا تھا تاکہ وہ عدت یہاں پر ہی گزارے لیکن لڑکی کے گھر والوں نے اس کو پاکستان بلا لیا اور لڑکی نے بھی کہا وہ جانا چاہتی ہے اور اس کو اس کے گھر والوں کے بیچ میں طلاق دی جائے تو اس کو میرا بیٹا exit پر پاکستان چھوڑ آیا۔ پاکی کے دنوں کا انتظار تھا، اس لیے اس وقت طلاق نہیں دی تھی۔ اب وہ لوگ کہ رہے ہیں اس کو اسلامی طریقے سے ہی طلاق دو، واپس بلائو اور وہاں تین مہینے رکھو۔
میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ کیا میرے بیٹے کو لڑکی کو واپس لانا ہوگا؟ کیا وہ اپنے والدین (دونوں حیات ہیں) کے گھر میں عدت نہیں کرسکتی؟ اگر اب لڑکی دوبارہ کہے کہ وہ واپس جاُکر وہی عدت کرنا چاہتی ہے تو کیا یہ لڑکی کا شرعی حق ہے کہ اسے واپس بلایا جائے اور یہیں طلاق دی جائے جبکہ وہ اپنی مرضی سے گئی ہے اور اس کا مہر بھی دیا جاچکا ہے اور exit بھی لگ چکی ہے اب visit پر دوبارہ بلانا ایک لمبا پروسس بھی ہے کیونکہ حج تک ویزا بند ہے۔
ان سب باتوں کی روشنی میں دینی رہنمائی فرمائیں کہ اگرچہ وہ اپنی مرضی سے گئی ہے لیکن اگر دوبارہ تقاضہ کرے تو لڑکے کو اسے طلاق اور عدت کے لیے لازمی بلانا ہوگا؟ کیا یہ اس کا شرعی حق ہے؟

جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ قانونی مجبوری کی وجہ سے عورت کے لیے اپنے شوہر کے گھر آنا دشوار ہے، اس لیے اگر شوہر طلاق دے دے اور عورت اپنے میکہ میں ہی عدت گزار لے تو اس مجبوری کی وجہ سے عورت کو گناہ نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

الدر المختار: (537/3، ط: دار الفکر)
(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce