سوال:
حضرت! پوچھنا تھا کہ کل ہم نماز عشاء ادا کر رہے تھے، امام صاحب نے سورة المومنون کی آیت نمبر 115 اور 116 تلاوت کی لیکن آیت نمبر 116 میں آخر میں رب العرش الكريم كى جگہ الرحمن الرحيم بھولے سے پڑھ لیا اور رکعت مکمل کر لی۔ پوچھنا یہ تھا کہ کیا ہماری نماز ادا ہو گئی؟ ایک تو یہ غلطی ہوئی اور ساتھ 3 آیت بھی پوری نہیں ہو سکی، اس کی بھی وضاحت فرما دیں۔
تنقیح:محترم! اس بات کی وضاحت کردیں کہ امام صاحب نے سورہ مؤمنوں کی آیت نمبر 115 میں "رب العرش الکریم" کے بجائے "رب الرحمن الرحیم" پڑھا ہے، یا رب العرش الکریم کو بالکل پڑھا نہیں ہے، بلکہ اس آیت میں "لَاۤ إِلَـٰهَ إِلَّا" کے بعد "هُوَ الرحمن الرحيم" پڑھا ہے؟ اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:حضرت امام صاحب نے سورہ مؤمنوں کی آیت نمبر116 میں رب العرش الکریم کو بالکل پڑھا نہیں ہے، بلکہ اس آیت میں "لَاۤ إِلَـٰهَ إِلَّا" کے بعد "هُوَ الرحمن الرحيم" پڑھا ہے۔ "رب العرش الکریم" کے بجائے "ھو الرحمن الرحیم" پڑھا ہے۔
جواب: واضح رہے کہ نماز کے اندر تلاوت کے دوران غلطی سے ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھ لینے سے اگر معنی میں شدید خرابی نہ آئے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
پوچھی گئی صورت میں امام صاحب نے سورہ مؤمنون کی آیت نمبر: 116 کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی بیان کی گئی صفت ربُّ العَرْشِ الْکَریْمِ (جو عزت والے عرش کے مالک ہے) کے بجائے اگرچہ "الرحمٰنِ الرحَیم" (جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے) پڑھا ہے، لیکن یہ بھی درحقیقت چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، اور ان کے پڑھنے کی وجہ سے آیت کے معنی میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی ہے جو شدید خرابی کا باعث ہو۔
نیز سورہ فاتحہ کے بعد تین چھوٹی آیتوں کے برابر یا ان سے بڑی دو آیتوں کی قراءت کرنے سے نماز کی ادائیگی درست ہوجاتی ہے، جبکہ مذکورہ دونوں آیتوں کی مقدار تین چھوٹی آیتوں سے زیادہ ہے، لہذا مذکورہ صورت میں نماز ادا ہوگئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
رد المحتار: (630/1، ط: دار الفکر)
"ان الخطاء اما فی الاعراب أی الحرکات والسکون ویدخل فیہ تخفیف المشدد وقصر الممدود وعکسھما أو فی الحروف بوضع حرف مکان اخر، أو زیادتہ أو نقصہ أو تقدیمہ أو تأخیرہ أو فی الکلمات أو فی الجمل کذلک أو فی الوقف ومقابلہ والقاعدۃ عند المتقدمین ان ماغیر المعنی تغییراً یکون اعتقادہ کفراً یفسد فی جمیع ذلک سواء کان فی القرآن أولا۔ الا ما کان من تبدیل الجمل مفصولا بوقف تام وان لم یکن التغییر کذلک فان لم یکن مثلہ فی القرآن والمعنی بعید متغیر تغیراً فاحشاً یفسد ایضاً کھذا الغبار مکان ھذا الغراب، وکذا اذا لم یکن مثلہ فی القرآن ولا معنی لہ کالسرائل باللام مکان السرائر وان کان مثلہ فی القرآن والمعنی بعید ولم یکن متغیرا فاحشا تفسد أیضا عند ابی حنیفۃ و محمد، وھو الاحوط، وقال بعض المشایخ: لاتفسد لعموم البلوی، وھو قول أبی یوسف وان لم یکن مثلہ فی القرآن ولکن لم یتغیر بہ المعنی نحو قیامین مکان قوامین فالخلاف علی العکس، فالمعتبر فی عدم الفساد عند عدم تغیر المعنی کثیراً وجود المثل فی القرآن عندہ والموافقۃ فی المعنی عندھما، فھذہ قواعد الائمۃ المتقدمین، واما المتأخرون کابن مقاتل وابن سلام واسمعیل الزاھد وابی بکر البلخی والھندوانی وابن الفضل والحلوانی، فاتفقوا علی ان الخطأ فی الاعراب لایفسد مطلقاً ولو اعتقادہ کفرا لان اکثر الناس لایمیزون بین وجوہ الاعراب، قال قاضیخان: وما قالہ المتأخرون أوسع وما قالہ المتقدمون أحوط"۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی