سوال:
میری شادی 2004 سے ہوئی ہے، لیکن میرے شوہر دوسرے ملک میں رہے ہیں اور کبھی بھی اپنی ذمہ داریاں نہیں اٹھانا چاہتے تھے۔ میں نے خود سے دو لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی۔
2018 سے ہم اکٹھے رہ رہے ہیں لیکن وہ ایک گھر میں رہنے کے باوجود کسی قسم کی بات چیت یا ازدواجی تعلق قائم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ مجھے طلاق دینے کو بھی تیار نہیں۔ کئی بار لوگوں نے مفاہمت کی کوشش کی لیکن وہ بار بار سارے وعدے توڑ دیتا ہے۔ میں اب 50 سال کا ہو گئی ہوں اور اس صورت حال کو برداشت کرنے سے قاصر ہوں۔
کیا مجھے اس نکاح کی تحلیل کا فتویٰ مل سکتا ہے؟
برائے مہربانی میری مدد کریں، کیونکہ میں اس کے رویے کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کی شادیاں جاری رکھنے سے قاصر ہوں۔
جواب: واضح رہے کہ عورت کو طلاق دینے کا اختیار صرف اس کے شوہر کے پاس ہوتا ہے، شوہر کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس کی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا ہے، سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر واقعی آپ میاں بیوی میں نباہ ناممکن ہو، اور باہمی صلح کی کوئی صورت نہیں نکل رہی ہو تو آپ کو چاہیے کہ خاندان کے بزرگوں کے ذریعہ شوہر سے علیحدگی کی کوئی صورت نکال لیں اور اگر شوہر طلاق دینے کے لیے راضی نہ ہو تو اسے خلع دینے پر راضی کرلیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (سورۃالبقرۃ، رقم الآیۃ: 229)
اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَاِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌ بِاِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ شَيْئًا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۖ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۗ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظَّالِمُوْنَ O
سنن ابن ماجه: (رقم الحدیث: 2081، ط: دارالجیل)
عن ابن عباس، قال: أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فقال: يا رسول الله، إن سيدي زوجني أمته، وهو يريد أن يفرق بيني وبينها، قال: فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر، فقال: «يا أيها الناس، ما بال أحدكم يزوج عبده أمته، ثم يريد أن يفرق بينهما، إنما الطلاق لمن أخذ بالساق.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی