resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: بجلی/گیس کا بل جمع کرانے میں تاخیر کی وجہ سے جرمانہ کا حکم اور سود کی چند مروجہ صورتیں (24873-No)

سوال: السلام علیکم! محترم مفتی صاحب! (1) بجلی/گیس کے بل کی تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں سرچارج جرمانے کی شکل میں شامل کیا جاتا ہے تو کیا یہ سود ہے؟ اور اگر ہم کسی بھی وجہ سے وقت پر ادائیگی نہیں کر سکتے ہیں تو سود کی ادائیگی سے بچنے کے لیے اس اضافی رقم کو معاف کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہے تو سود کا ذمہ دار کون ہوگا؟
(2) اس کے علاوہ کیا آپ عوامی/کاروباری معاملات میں ایسی مثالوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں جہاں ہم نادانستہ طور پر سود کے جال میں پھنس جاتے ہیں؟

جواب: 1) بجلی یا گیس وغیرہ کا بل مقررہ وقت کے بعد تاخیر سے جمع کرانے کی صورت میں اصل بل سے جو اضافی رقم لی جاتی ہے، وہ مالی جرمانہ ہے، اور مالی جرمانہ لینا شرعاً درست نہیں ہے، اس لئے حتی الامکان مقررہ وقت سے پہلے ادائیگی کرنا لازم ہے، تاکہ جرمانہ لگنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ قدرت کے باوجود ادائیگی میں تاخیر جائز نہیں ہے، تاہم مالی وسعت نہ ہونے کی صورت میں تاخیر کی وجہ سے اگر جرمانہ لگ جائے تو مجبوری کی حالت میں اضافی رقم دینے کا گناہ نہیں ہوگا۔
2) آج کل سود کی رائج چند صورتیں یہ ہیں:
1- سودی بینک کے ساتھ سرمایہ کاری کرنا۔
2- مروجہ انشورنس پالیسی لینا۔
3- پرائز بانڈز میں سرمایہ کاری کرنا۔
4- بیسی (کمیٹی) کی وہ صورت جس میں پہلے نام نکلنے کی صورت میں بقیہ اقساط نہ دینی پڑتی ہوں۔
5- کمی بیشی کے ساتھ پرانے نوٹ دے کر نئے نوٹ لینا
6- گروی کی چیز جیسے: مکان وغیرہ سے فائدہ اٹھانا (خود استعمال کرنا یا کسی کو کرایہ پر دے کر منافع حاصل کرنا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 188)
وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَo

و قوله تعالی: (المائدۃ، الآیة: 90)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ

سنن الدار قطنی: (423/3، ط: مؤسسة الرسالة)
عن عمرو بن يثربي , قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع بمنى فسمعته يقول: «لا يحل لامرء من مال أخيه شيء إلا ما طابت به نفسه» , فقلت حينئذ: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم أرأيت إن لقيت غنم ابن عم لي فأخذت منها شاة فاجتزرتها أعلي في ذلك شيء؟ , قال: «إن لقيتها نعجة تحمل شفرة وأزنادا فلا تمسها».

صحیح البخاری: (کتاب الاستقراض: رقم الحدیث: 2400)
عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَخِي وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ

إعلاء السنن: (باب الانتفاع بالمرهون، رقم الحدیث: 5818، 64/18، ط: إدارة القرآن و العلوم الاسلامیة)
عن ابن سیرین قلا: جاء رجل إلی ابن مسعود رضي اللّٰه عنه فقال: إن رجلا رهنني فرسًا فرکبتہا، قال: ما أصبت من ظهرها فهو ربا۔.......
قلت: هذان الأثران یدلان علی أنه لا یجوز للمرتهن الانتفاع بالمرهون؛ لأنه ربا.

رد المحتار : (مطلب فی التعزیر بأخذ المال، 61/4، ط. ایچ ایم سعید
والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال

وفیه أیضا: (مطلب فی التعزیر بأخذ المال، 61/4)
لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعی

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Loan, Interest, Gambling & Insurance