سوال:
یہاں جاپان میں مفتیان کرام چاندی کے نصاب کو معیار بنا کر زکوۃ کے نصاب کو مقرر فرماتے ہیں جبکہ دیگر مفتیان کرام کی نظر اس بات پر ہے کہ سونے کے نصاب کو زکوۃ کے لیے معیار بنایا جائے، کیونکہ چاندی کے نصاب کا معیار غناء کے لیے ناکافی ہے۔ جاپان میں چاندی کے نصاب کے مطابق تقریباً اسی ہزارجاپانی بنتے ہیں، جبکہ یہاں جاپان میں اسی ہزار جاپانی کی قدر کچھ زیادہ نہیں ہے۔ یہاں عمومی طور پر گھر کا کرایہ ساٹھ ہزار جاپانی سے ستر ہزار جاپانی ہے اورماہانہ گھریلو کم از کم خرچ تقریباً پچاس ہزار جاپانی ہے، جبکہ بجلی، پانی اور گیس کا خرچ علیحدہ ہے، نصاب کےاس حساب سے ایک عام آدمی جو بمشکل ماہانہ ضروریات کو پورا کرنے کی استطاعت رکھتا ہے، جس نصاب پر جاپان میں زکوۃ فرض ہوتی ہے، جبکہ یہ مقدار عام گھرکے ماہانہ کرایہ کی قیمت کے برابر ہے، یہ مقدار اس ملک کے حساب سے غنی کی نہیں بلکہ غریب کی تصور کی جاتی ہے تو اہل جاپان کے لیے سونے کے نصاب کو زکوۃ کا معیار بنانے کے بارے میں استفتاء مطلوب ہے۔
مستفتین
جمیع مفتیان کرام (جاپان)
جواب: واضح رہے کہ فقہ حنفی کی "ظاہر الروایۃ" کے مطابق مالک کو اختیار ہے کہ وہ سونا اور چاندی میں سے جس نصاب کے اعتبار سے چاہے اپنے دیگر اموالِ زکوٰۃ(مال تجارت اور نقدی وغیرہ) کا حساب لگا سکتا ہے۔
البتہ فقہ حنفی کی ایک روایت کے مطابق زکوٰۃ کی ادائیگی میں مالک کے لیے "انفع للفقراء" (فقراء کے فائدے) کی رعایت رکھتے ہوئے سونے اور چاندی میں جس کے نصاب کو پہلے اس کا مالِ تجارت یا نقدی وغیرہ پہنچ جائے، اس کے مطابق اس کے لیے زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوگی۔
موجودہ دور میں اسی قول کے مطابق چاندی کے نصاب کو معیار بناکر فتویٰ دیا جاتا ہے، لہذا اگر کسی کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر اموالِ زکوٰۃ ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
اس قول کے مطابق آج کل عمل کرنے میں اگرچہ بظاہر حرج معلوم ہورہا ہے، لیکن اگر زکوٰۃ کے متعلق شرعی مسائل و احکامات کو غور سے دیکھا جائےتو اس قول کے مطابق عمل کرنے میں فقراء کو زیادہ فائدہ پہنچنے کے ساتھ ساتھ وجوبِ زکوٰۃ کی وجہ سے لوگوں پر کوئی ناقابلِ برداشت مشقت اور حرج بھی لازم نہیں آرہا ہے، کیونکہ شریعت کی طرف سے زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے کوئی بڑی چوڑی مقدار مقرر نہیں ہے، بلکہ کل مال کا چالیسواں (ڈھائی فی صد) مقرر ہے، اور اس ڈھائی فی صد کی ادائیگی کو بھی نصاب کے بقدر مالک بننے کے بعد فوری طور پر لازم نہیں کیا ہے، بلکہ سال گزرنے کے بعد جب بندے کے پاس نصاب کے بقدر یا اس سے زیادہ مال رہے، تب جاکر اس پر مذکورہ مقدار کی ادائیگی بطورِ زکوٰۃ کے لازم ہوگی، اگر سال مکمل ہونے پر کسی کے پاس نصاب کے بقدر مال نہیں رہتا تو اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی۔
نیز شریعت نے اس بات کی بھی گنجائش دی ہے کہ سال مکمل ہونے کے بعد اگر کسی کے لیے زکوٰۃ کی ادائیگی ایک ساتھ مشکل ہو تو وہ تھوڑا تھوڑا کرکے زکوٰۃ ادا کرسکتا ہے اور یہ بھی گنجائش دی ہے کہ سال مکمل ہونے سے پہلے بندہ اپنی سہولت کے مطابق وقتاً فوقتاً تھوڑا تھوڑا کرکے بھی زکوٰۃ ادا کرسکتا ہے۔
بہرحال چاندی کے نصاب کو معیار بنانے کی وجہ سے اگرچہ اس دور میں بظاہر حرج لگ رہا ہے، لیکن صاحبِ نصاب شخص شریعت کی طرف سے زکوٰۃ کی ادائیگی میں مذکورہ دی گئی سہولتوں سے مشکل اور حرج کے وقت فائدہ اٹھاکر اس اہم فریضہ کی ادائیگی آسانی کے ساتھ کرسکتا ہے۔
اس کے بر خلاف اگر سونے کے نصاب کو زکوٰۃ کے لیے معیار مقرر کیا جائے تو اس میں اگرچہ بظاہر سہولت معلوم ہورہی ہے، لیکن زکوٰۃ کا اہم مقصد چونکہ فقراء کے ساتھ تعاون کرنا ہے، جبکہ اس صورت میں فقراء کے ساتھ وہ تعاون نہیں رہے گا جو چاندی کے نصاب کو معیار بنانے میں حاصل ہوتا ہے، بلکہ ایسی صورت میں بہت سے لوگ کئے لاکھ کے مالک ہونے کے باوجود وجوبِ زکوٰۃ سے بری ہوکر خود زکوٰۃ کے مستحق ٹہر پائیں گے، نیز مادہ پرستی کے اس دور میں عین ممکن ہے کہ بہت سے لوگ تعلق کی بنیاد پر ایسے لاکھوں کے مالک لوگوں کو زکوٰۃ ادا کرنے لگ جائیں گے، جس کے نتیجے میں بہت سے غریب اور نادار لوگ زکوٰۃ سے محروم ہوسکتے ہیں۔
لہذا مذکورہ بالا تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے پوچھی گئی صورت میں جاپان میں زکوٰۃ کے لیے چاندی کے نصاب کو ہی برقرار رکھنا چاہیے، یہی مبنی بر احتیاط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
سنن أبي داؤد: (66/3، رقم الحدیث: 1624، ط: دار الرسالة العالمية)
عن علي: أن العباس سأل النبي - صلى الله عليه وسلم - في تعجيل صدقته قبل أن تحل، فرخص في ذلك.
سنن الدار قطني: (467/2 ، رقم الحديث: 1887، ط: مؤسسة الرسالة)
عن ابن عمر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا زكاة في مال امرئ حتى يحول عليه الحول.
الهداية: (103/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
ثم قال: " يقومها بما هو أنفع للمساكين " احتياطا لحق الفقراء قال رضي الله عنه وهذا رواية عن أبي حنيفة رحمه الله وفي الأصل خيره لأن الثمنين في تقدير قيم الأشياء بهما سواء وتفسير الأنفع أن يقومها بما يبلغ نصابا.
الفتاوى التاتارخانية: (164/3، ط: زكريا ديوبند)
وعن أبي حنفية أنه يقوم بما فيه إيجاب الزكاة حتى إذا بلغ بالتقويم بأحدهما نصاباً ولم يبلغ بالآخر قوم بما يبلغ نصاباً، وهو إحدى الروايتين عن محمد، ولو كان بالتقويم بكل واحد منهما يبلغ نصاباً، يقوم بما هو أنفع للفقراء من حيث الرواج ، وإن كانا في الرواج سواء يتخير المالك، وفي شرح الطحاوى : فأما في بلادنا اليوم يقوم عروض التجارة على كل حال بالدراهم لأن النقد عندنا هو الدراهم .
الدر المختار: (272/2، ط: دار الفکر)
(وافتراضها عمري) أي على التراخي وصححه الباقاني وغيره (وقيل فوري) أي واجب على الفور (وعليه الفتوى) كما في شرح الوهبانية (فيأثم بتأخيرها) بلا عذر (وترد شهادته) لأن الأمر بالصرف إلى الفقير معه قرينة الفور وهي أنه لدفع حاجته وهي معجلة، فمتى لم تجب على الفور لم يحصل المقصود من الإيجاب على وجه التمام، وتمامه في الفتح.
قوله (وافتراضها عمري) قال في البدائع وعليه عامة المشايخ، ففي أي وقت أدى يكون مؤديا للواجب، ويتعين ذلك الوقت للوجوب، وإذا لم يؤد إلى آخر عمره يتضيق عليه الوجوب.
الموسوعة الفقهية الكويتية: (294/23، ط: دار السلاسة)
ذهب جمهور الفقهاء ومنهم الحنفية والشافعية والحنابلة وأبو عبيد وإسحاق، إلى أنه يجوز للمزكي تعجيل إخراج زكاة ماله قبل ميعاد وجوبها، لما ورد أن العباس سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم في تعجيل صدقته قبل أن تحل، فرخص له في ذلك. وقال النبي صلى الله عليه وسلم لعمر: إنا قد أخذنا زكاة العباس عام الأول للعام.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی