resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: لڑکی کا لڑکے کی وکالت سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں خود سے نکاح کرنے کا حکم (24880-No)

سوال: ہماری منگنی کو عرصہ ہوا، شادی کو ابھی عرصہ باقی ہے۔میں نے منگیتر سے فون پر روابط کی وجہ سے اللّٰہ کی ناراضگی کے ڈر سے عالم دین کے مختلف بیانات سن کر منگیتر کو فون پر وکیل مقرر کر کے دو گواہوں کی موجودگی میں مجھ سے نکاح کرنے کی اجازت دی تھی۔انہوں نے میرے مکمل نام اور حق مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح پڑھایا۔ کیا نکاح منعقد ہو گیا ہے؟

جواب: واضح رہے کہ اگر عاقل بالغ مرد کسی عاقلہ بالغہ عورت کو خود سے نکاح کرنے کا وکیل بنادے اور وہ عورت شرعی گواہوں (دو عاقل بالغ مسلمان مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں اس شخص کا نکاح خود سے کرلے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے، لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر مذکورہ بالا شرائط موجود ہوں تو یہ نکاح منعقد ہوچکا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

البحر الرائق: (کتاب النکاح، 94/3، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله: عند حرين أو حر وحرتين عاقلين بالغين مسلمين، ولو فاسقين أو محدودين أو أعميين أو ابني العاقدين) متعلق بينعقد بيان للشرط الخاص به، وهو الإشهاد فلم يصح بغير شهود لحديث الترمذي «البغايا اللاتي ينكحن أنفسهن من غير بينة» ولما رواه محمد بن الحسن مرفوعا «لا نكاح إلا بشهود» فكان شرطا ولذا قال في مآل الفتاوى: لو تزوج بغير شهود ثم أخبر الشهود على وجه الخبر لا يجوز إلا أن يجدد عقدا بحضرتهم. اه

الھندیة: (295/1، ط: دار الفكر)
امرأة وكلت رجلا بأن يزوجها من نفسه فقال: زوجت فلانة من نفسي يجوز، وإن لم تقل: قبلت كذا في الخلاصة

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah