resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: والد کے انتقال کے بعد متروکہ کاروبار میں بیٹوں کا اضافہ کرنا، نیز ایک بیٹے کا زندگی میں حصہ لے کر میراث سے دستبردار ہوجانا (24902-No)

سوال: 1991 میں والد اور والدہ دونوں کی موجودگی میں پانچ بھائی اور آٹھ بہنوں میں سے ایک بھائی نے کہا کہ مجھے الگ کرو اور اس طرح الگ کرو کہ پھر میرا باپ کی وراثت سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ چنانچہ باپ کی موجودگی میں کل اثاثہ پراپرٹی نقدی سمیت 28 لاکھ بنا۔
اس ایک بھائی کو الگ کرنے کے لیے 28 لاکھ کی تقسیم باپ کی موجودگی میں ان کی رضامندی سے بڑے بھائیوں نے اس طرح کی کہ چار چار لاکھ روپوں کے پانچوں بھائیوں کے حصے بنا دیے۔ الگ ہونے والے بھائی کو چار لاکھ روپے دے کر الگ کر دیا، باقی بھائیوں کے نام لگا دیے لیکن ان کا حصہ ان کو دیا نہیں ۔ یہ کل 20 لاکھ روپے ہوئے باقی آٹھ لاکھ روپے میں سے چار لاکھ والدین کے لیے اور چار لاکھ کنوارے بہن بھائیوں کی شادی کے لیے رکھ دیے، چار لاکھ تو الگ ہونے والے بھائی کو دے دیے تھے۔ بقیہ 24 لاکھ روپے سے والد کا کاروبار جو چل رہا تھا وہ اسی طرح چلتا رہا لیکن محنت بڑے بیٹوں نے کی۔
18 جون 1995 میں والد صاحب کا انتقال ہوا۔ 1997 میں کنوارے بہن بھائیوں کی شادی ہو گئی۔ مارچ 2001 میں باقی چار بھائیوں نے الگ ہونے کے لیے کل پراپرٹی نقدی کا حساب لگایا جو کہ ایک کروڑ روپے بنا۔
جواب طلب امور یہ ہیں:
1) باپ کی موجودگی اور رضامندی والی اس تقسیم کا کیا حکم ہے؟
2) 1991 میں جو تقسیم باپ کی موجودگی میں ہوئی اور 2001 میں جو تقسیم بھائیوں نے کی ان دونوں تقسیموں کے وقت بہنوں کا کوئی حصہ نہیں نکالا گیا اب بہنوں کو کیسے حصہ دیں گے موجودہ اثاثے اور قیمت کے مطابق یا پہلے والے اثاثے اور قیمت کے مطابق حصہ دیں گے؟
3) باپ کی وفات کے بعد جو کاروبار بڑھا بڑے بھائیوں کی محنت کی وجہ سے وہ بھی میراث کا حصہ ہوگا یا نہیں اور اس بڑھنے والے اثاثے کو کیسے الگ کریں گے؟
4) کیا بڑے بھائیوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کاروبار میں زیادہ محنت کی وجہ سے اپنے باپ کی میراث میں سے یا باپ کی وفات پا جانے کے بعد بڑھنے والے اثاثے میں سے زیادہ حصہ لیں؟
5) اب اگر شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کریں تو موجودہ اثاثوں اور ان کی قیمتوں کے مطابق کریں گے یا پہلے والے اثاثوں اور ان کی قیمتوں کے مطابق تقسیم کریں گے؟
نوٹ:اس بھائی کو نکال کر ورثاء میں اب چار بھائی، آٹھ بہنیں اور ایک بیوہ ہیں۔

جواب: 1) پوچھی گئی صورت میں چونکہ والد صاحب کے کہنے پر چاروں بیٹوں نے آپس میں صرف زبانی تقسیم کی تھی جو کہ غیر منصفانہ تھی اور مزید یہ کہ کسی کو بھی اس وقت ملکیتاً قبضہ و تصرف نہیں دیا گیا تھا (جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے باقی بھائیوں کے نام لگا دیے لیکن ان کا حصہ ان کو دیا نہیں) اس لیے بیٹوں کی کی گئی تقسیم نافذ نہیں ہوئی، لہذا والد کی تمام چیزیں ان کے شرعی ورثاء (بیوی، بیٹے اور بیٹیوں) میں شریعت کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوں گی۔
2،3) والد کے انتقال کے بعد ان کے کاروبار میں جو اضافہ ہوا ہے، وہ سب والد کی ہی ملکیت شمار ہوگا، البتہ جن بھائیوں نے کاروبار کو بڑھانے میں محنت کی ہے، وہ اپنے حصہ کے علاوہ اجرتِ مثل لے سکتے ہیں۔
4) وراثت کئی سال بعد تقسیم جارہی ہے تو موجودہ قیمت کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔
5) واضح رہے کہ والد کی زندگی میں حصہ مانگنے والے بیٹے کو والد صاحب نے جو چار لاکھ روپے دیے ہیں، وہ والد صاحب کی طرف سے ہبہ (Gift) شمار کیا جائے گا اور یہ میراث کا بدل نہیں ہے، کیونکہ میراث مورث کے مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے اور زندگی میں جو دیا جائے وہ ہبہ (Gift) کہلاتا ہے، لہذا اس بیٹے کو بھی والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی میراث میں سے حصہ ملے گا، البتہ اس بیٹے کو چاہیے کہ اپنا وعدہ پورا کرے اور ترکہ میں سے تھوڑا مال لے کر اپنے باقی حصے سے دیگر ورثاء کے حق میں دستبردار ہوجائے۔
اس کے علاوہ مرحوم کے ورثاء (بیوی، پانچوں بیٹوں اور آٹھ بیٹیوں) میں میراث کی تقسیم یوں ہوگی:
مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد کو ایک سو چوالیس (144) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو اٹھارہ (18)، پانچوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو چودہ (14) اور آٹھوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو سات (7) حصے ملیں گے۔
فیصد کے اعتبار سے بیوہ کو %12.5 فیصد حصہ، پانچوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو %9.72 فیصد حصہ اور آٹھوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو %4.86 فیصد حصہ ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ ... الخ

و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ... الخ

فتاوی هندیة: (کتاب الشرکة، 70/4، ط: رشیدیة)
أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما مال فالكسب كله للأب إذا كان الابن في عيال الأب لكونه معينا له

درر الحكام: (الكتاب العاشر، الباب السادس، الفصل السادس، المبحث الثاني، 431/3 ط: دار الجيل)
المادة (1398): (إذا عمل أحد في صنعته مع ابنه الذي في عياله فكافة الكسب لذلك الشخص و يعد ولده معينا، كما أنه إذا غرس أحد شجرا فأعانه ولده الذي في عياله فيكون الشجر لذلك الشخص ولا يشاركه ولده فيه)
إذا عمل أحد في صنعة هو وابنه الذي في عياله واكتسبا أموالا ولم يكن معلوما أن للابن مالا سابقا فكافة الكسب لذلك الشخص ولا يكون لولده حصة في الكسب بل يعد ولده معينا وليس له طلب أجر المثل حتى أنه لو تنازع الأب في المتاع الموجود في بيته مع أولاده الخمسة الذين يقيمون معه في ذلك البيت وادعى كل منهم أن المتاع له فالمتاع للأب ولا يكون للأولاد غير الثياب التي هم لابسوها (التنقيح) ما لم يثبتوا عكس ذلك ويوجد ثلاثة شروط لأجل اعتبار الولد معينا لأبيه:
1 - اتحاد الصنعة، فإذا كان الأب مزارعا والابن صانع أحذية فكسب الأب من المزارعة والابن من صنعة الحذاء، فكسب كل منهما لنفسه وليس للأب المداخلة في كسب ابنه لكونه في عياله.
وقول المجلة (مع ابنه) إشارة لهذا الشرط، مثلا إن زيدا يسكن مع أبيه عمرو في بيت واحد ويعيش من طعام أبيه وقد كسب مالا آخر فليس لإخوانه بعد وفاة أبيه إدخال ما كسبه زيد في الشركة، كذلك لو كان اثنان يسكنان في دار و كل منهما يكسب على حدة وجمعا كسبهما في محل واحد ولم يعلم مجموعه لمن كما أنه لم يعلم التساوي أو التفاوت فيه فيقسم سوية بينهما ولو كانا مختلفين في العمل والرأي
2 - فقدان الأموال سابقا، إذا كان للأب أموال سابقة كسبها ولم يكن معلوما للابن أموال بأن ورث من مورثه أموالا معلومة فيعد الابن في عيال الأب
3 - أن يكون الابن في عيال أبيه، أما إذا كان الأب يسكن في دار والابن في دار أخرى وكسب الابن أموالا عظيمة فليس للأب المداخلة في أموال ابنه بداعي أنه ليس للابن مال في حياة أبيه.

تکملة رد المحتار: (کتاب الدعوی، 505/7، ط: سعید)
" الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط".

الأشباہ و النظائر: (ما یقبل الاسقاط من الحقوق و ما لا یقبله، ص: 309، ط: قدیمی)
"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْك".

العقود الدریۃ في تنقيح الفتاوى الحامدیہ: (کتاب الدعوی، 26/2)
"(سئل) في أحد الورثة إذا أشهد عليه قبل قسمة التركة المشتملة على أعيان معلومة أنه ترك حقه من الإرث وأسقطه وأبرأ ذمة بقية الورثة منها ويريد الآن مطالبة حقه من الإرث فهل له ذلك؟
(الجواب) : ‌الإرث ‌جبري لا يسقط بالإسقاط وقد أفتى به العلامة الرملي كما هو محرر في فتاواه من الإقرار نقلا عن الفصولين وغيره فراجعه إن شئت."

عمدۃ القاری: (229/23، ط: دار احیاء التراث العربی)
المواريث فرائض وفروضا لما أنها مقدرات لأصحابها ومبينات في كتاب الله تعالى ومقطوعات لا تجوز الزيادة عليها ولا النقصان منها۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster